فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر سے پیدا ہونے والے پلاسٹک فضلہ پھیلانے کا ذمہ دار ملک امریکا ہے جہاں ہر شہری 130 کلوگرام پلاسٹ فضلہ سالانہ پیدا کرتا ہے، دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں ہر شہری سالانہ 99 کلوگرام پلاسٹک فضلہ پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے جبکہ تیسرے نمبر پر موجود جنوبی کوریا میں اس کی مقدار 88 کلوگرام سالانہ ہے۔ اے ایف پی کی حالیہ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت پلاسٹک آلودگی کو روکنے کے لیے قومی سطح پر حکمت عملی تیار کریں۔ امریکا میں پلاسٹک فضلہ ایک ناسور بیماری کی طرح پھیلتا جارہا ہے جو ہر گزرتے سال کی طرح امریکا میں پلاسٹ فضلے کے بحران میں تیزی سے اضافہ کررہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے سال 2016 میں مجموعی طور تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک فضلہ پیدا کیا تھا، جو یورپی یونین کے تمام رکن ممالک اور چین کی جانب سے پیدا ہونے والے پلاسٹک فضلے سے دو گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پلاسٹک کی عالمی پیداوار 1966 میں 2 کروڑ میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2015 میں 38 کروڑ 10 لاکھ میٹرک ٹن ہوگئی ہے جو نصف صدی میں 20 گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ میں حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ 80 لاکھ میٹر ٹن پلاسٹک کا کچرا سالانہ دنیا میں داخل ہوتا ہے یعنی ہر منٹ میں پلاسٹک کے کچرے کے ایک ٹرک کو سمندر میں پھینکنے کے برابر ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو 2030 تک ہر سال 5 کروڑ 30 میٹرک ٹن کچرا سمندر میں داخل ہوگا جو سمندر سے سالانہ پکڑی جانے والی مچھلی کے کل وزن کا تقریباً نصف ہے۔
پلاسٹک آلودگی کیوں اتنا پھیل رہا ہے؟
ابتدائی طور پر سمندر میں موجود پلاسٹک فضلے اور آبی حیات کو اس سے پہنچنے والے خطرناک نقصانات سے نمٹنے کے لیے زیادہ تر توجہ بحری جہازوں اور دیگر بحری ذرائع سے جڑے فضلے پر دی جاتی تھی لیکن حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیر زمین استعمال ہونے والا پلاسٹک دریاؤں اور ندیوں کے ذریعے سمندھ کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں آبی حیات کو پلاسٹک میں پھنسنے اور ان کو کھانے کا خطرہ ہے جو واپس انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
Discussion about this post