گزشتہ دنوں صحافیوں کو ایک نوید ِمسرت سنائی گئی کہ ان کی حفاظت کیلئے ایک بل پاس ہوگیا ہے جس پر صدرِ مملکت نے دستخط کردیئے ہیں۔۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔۔ لیکن پاکستان یقیناً ان گنے چنے ملکوں میں سے ہے جنہوں نے اس بدترین گوریلا جنگ میں کامیابی حاصل کی اور اپنی حدود میں امن کو بڑی حد تک بحال کیا۔
یہ سب اتنا آسان نہ تھا، پاکستانی معاشرے کے ہر ایک شخص کو دہشتگردی نے نشانہ بنایا، کم سے کم اسی ہزار انسانوں کو جانی لحاظ سے، باقیوں کو نفسیاتی، مالی اور معاشرتی نقصان اٹھانا پڑا۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو یوں سمجھ لیں کہ جس خاندان کا ایک کمانے والا فرد دہشتگردی کا نشانہ بن جائے تو اس کے پورے خاندان کو اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑے ہونے میں ایک زمانہ لگ جاتا ہے۔۔ ایسے ہی لوگوں میں صحافی بھی شامل ہیں جو کہ دہشت گردی کے ہر ایک واقعے کو رپورٹ کرنے کیلئے اپنی جان کی بازی لگاتے رہے، اور نقصان بھی اٹھاتے رہے۔ یقیناً ایسے حالات میں یہ بل صحافیوں کیلئے کوئی نہ کوئی آسانی یا سہولت لے کر آئے گا۔
لیکن صحافیوں (یا میڈیا پروفیشنلز) کو اس سے بھی بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔۔ اور اس کا تعلق پروٹیکشن سے نہیں ہے ۔۔ وہ ہے معاشی مشکل ۔۔ اس وقت پاکستانی میڈیا کی حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد سے تقریباً سارے ٹی وی چینلز اور شاید چند اخبارات نے اپنے ملازمین کی تنخواہیں کم کردی تھیں، ان ملازمین سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ یہ کمی صرف مشکل حالات کی وجہ سے ہے اور حالات بہتر ہوتے ہی (یعنی تین مہینے میں) یہ تنخواہیں بحال کردی جائیں گی۔۔ اس وعدے کو وفا ہوتے ہوتے تین سال بیت گئے ۔۔ کچھ ٹی وی چینلز ابھی تک پرانی کٹوتیاں کررہے ہیں۔۔ نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد اب بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ یہاں میڈیا یونینز کا کردار بالکل موم کی گڑیا جیسا تھا، تین سال کی خاموشی کے بعد اگر کچھ تنخواہ کی بحالی ممکن ہوئی بھی ، تو وہ میڈیا مالکان کی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ہوئی، جس میں یونینز کا کوئی کردار نہ تھا، اور اگر چند رسمی سی ملاقاتوں کو "جدوجہد” کا نام دے بھی دیا جائے، تو بھی اب شاید یونینز وہ "جدوجہد” ادھوری چھوڑ کر کسی اور کام میں لگ گئے ہوں گے۔۔ کیونکہ یہ کام تو فی الحال پورا نہیں ہوا ہے۔
دوسری مشکل اس سے بڑی ہے، اور وہ ہے بونسز اور دیگر الاؤنسز کا نہ ہونا۔۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عید اور بقرعید پر ایک سفیدپوش شخص کس درجہ مشکل سے گزر کر اپنے گھر والوں کیلئے اہتمام اور انتظام کرتا ہے۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپی سفیدپوشی کا بھرم رکھنے کیلئے قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے۔۔ عیدین پر، جب تمام فیکٹریوں، دکانوں، بینکوں، مالی اداروں، حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کرنے والوں کو بھی عیدی یا بونس دیا جاتا ہے، میڈیا ورکرز اس حق سے تاحال محروم ہیں۔۔
ہم سب اپنے گھر کی کام والی ماسی یا ڈرائیور یا چوکیدار تک کو کم سے کم پانچ سو روپے دیتے ہیں تاکہ وہ عید پر ایک نیا جوڑا بنا لے، مگر میڈیا ورکرز کو ہر عید پر یا تو لوگوں سے ادھار لینا پڑتا ہے (جس کا مطلب اگلے کئی مہینوں تک اس قرض کی ادائیگی کی بھاگ دوڑ ہے)، یا پھر ہر میڈیا ورکر کوئی اضافی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اسے کچھ آمدنی ہوجائے، تاکہ اس کے بیوی بچے کیلئے چند نئے جوڑے یا عید پر اضافی راشن آسکے۔۔ یہ چند ہزار روپے ایک میڈیا ورکر کو کتنے مہینوں تک کتنے بھاری پڑتے ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا۔۔ کوئی اس کے گھر میں ہونے والے جھگڑوں اور بچوں کے اسکولز سے فیس کیلئے آنے والی کالز کو نہیں جانتا۔ یہ وہ بھاری پتھر ہیں جو ایک عام سے میڈیا ورکر کو اٹھائے اٹھائے پھرنے ہوتے ہیں۔۔ کہنے کو ایک میڈیا ورکر معاشرے کے ہر طبقے کے افراد سے رابطے میں رہتا ہے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے، مگر اس کے اپنے مسائل کو نہ کوئی جانتا ہے، اور ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی ان مسائل کو مانتا بھی نہیں۔۔
یہ تو صرف بونس کی بات ہے، اگر پراویڈنٹ فنڈ یا پنشن کی بات کی جائے تو بات نجانے کہاں تک چلی جائے گی۔۔
صحافیوں کی پروٹیکشن ایک پرکشش نام اور نعرہ ہے، فرض کریں کہ اگر دس فیصد صحافیوں کو حفاظت کی ضرورت بھی ہے تب بھی حقوق کی ضرورت تو سو فیصد میڈیا ورکرز کو ہے۔ کون اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ اسے کسی بونس کی حاجت نہیں یا اس کے گھر کے سارے خرچے اس بےپناہ مہنگائی میں، بغیر کسی اضافی کام کے، آسانی سے پورے ہوجاتے ہیں۔ جب تک صحافتی تنظیمیں، میڈیا ورکرز کے اس بنیادی مسئلے پر توجہ نہیں دیں گی، میڈیا ورکرز خودکشیاں کرتے رہیں گے۔۔ کیا کبھی کسی صحافتی تنظیم یا یونین نے اس بارے میں جدوجہد کی بات کی؟؟ اگر کسی کونے سے کوئی آواز ُاٹھی بھی تو اسی شنوائی نہیں ہوئی ۔۔
اب، جبکہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں جمہوریت کی حامی اور انسانی حقوق کی علمبردار ہیں، شاید یہ حقوق حاصل کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو۔ لیکن اگر اب بھی یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو میری طرح کا ایک عام میڈیا ورکر یہ سوچنے پر مجبور ہوگا۔۔ کہ ہمارا ہے کون۔۔۔؟؟
Discussion about this post