افغان طالبان حکومت نے ایک نئے قانون میں اس بات کو لازم قرار دیدیا ہے کہ کسی بھی عورت کو اس کی مرضی کے بغیر رشتہ ازدواج میں نہیں باندھا جاسکتا۔ عورت کو ایک آزاد اور پر وقار انسان ہونے کی حیثیت سے پوری اجازت ہوگی کہ وہ کس مرد کا انتخاب کرتی ہے، اس نئے حکم نامے میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عورت کسی کی جاگیر نہیں،یہ اعلان افغان حکومت کے ترجمان ڈاکٹر ایم۔ نعیم نے اپنے آفیشئیل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا۔جس میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ وہاں کی فرسودہ رسم جو صدیوں سے چلتی ہوئی آرہی ہیں کہ جنگ بندی کے لیے ایک عورت کو مخالف فریق کو دینے والی انسان سوز رسم کے سد باب کو نئے حکم نامے سے روکا جائے گا۔ نئے حکم نا مے میں ا س بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ کسی بھی طرح سے عورت پر عدت گزارنے کے بعد اس کی مرضی کے بغیر نکاح نہیں کیا جاسکتا۔
بیوی اپنے شوہر سے مہر کا تقاضا کسی بھی وقت کرسکتی ہے۔ ایک بیوہ عورت کو اپنے شوہر کی جائداد میں بالکل حق ہوگا اور اس سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتااور جو مرد حضرات ایک سے زائد بیویاں رکھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ سلامی اصولوں کے تحت انصاف کریں۔
افغان طالبان امن اور انسانی حقوق کی فراہمی کی راہ میں گامزن
افغان طالبان جنہوں نے پندرہ اگست کو افغانستان کی باگ ڈور سنبھالی اور اشرف غنی کی حکومت کو چلتا کیا، ان پر انسانی حقوق کی بنیادی ذمہ داری کو پوری کرنے کو دنیا بھر نے لازمی قرار دیا کہ وہ اگر چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے تو وہ عورتوں کی تعلیم کی یقین دہانی اور ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اب دیکھنے میں یہ آیا کہ طالبان نے 12ویں جماعت تک عورتوں کی تعلیم کو فرض قرار دیا۔ سوشل میڈیا پروائرل تصویر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ قندھار یونیورسٹی میں گریجویشن تقریب میں طالبات چہرہ ڈھانپ کر ڈگری وصول کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی افغان طالبان حکومت نے خواتین کو کرکٹ کھیلنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔
Discussion about this post