سو معصوم کلیوں کے خون کا پیاسا جاوید اقبال ایک بار پھر اپنی دہشت پھیلانے کو ہے تیار 90 کی دہائی میں پاکستانی تاریخ کا وحشی درندہ لاہور کا رہائشی جاوید اقبال کی ایسی کہانی جسے سن کر ہر شخص کی روح کانپ جائے، اس سفاک شخص نے 1998 اور 1999 کے دوران تقریباً 100 بچوں کو زیادتی کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ سفاک قاتل نہ صرف بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرتا تھا بلکہ انہیں مار کر بچوں کی لاشیں تیزاب میں گلا کر دریا بردبھی کردیتا تھا۔ جاوید اقبال کی درندگی کا نشانہ بننے والے تمام بچوں کی عمریں 6سے 16 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے زیادہ تر بچے گھر سے بھاگے ہوئے اور لاہور کی سڑکوں پر رہنے والے تھے۔ پنجاب پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران جاوید اقبال کے گھر کے مناظر ایسے تھے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں دنگ رہ گئیں تھی، بڑے بڑے ڈرمز میں رکھے گئے کمیکل سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے سانس لینا بھی دوبھر ہوگیا تھا۔ خستہ ہال گھر خوف اور درندگی کی داستان بیان کررہا تھا۔
ایک سیریل کلر کی ان سنی کہانی اور اس کے گھناؤنے جرم پر اب فلم بن چکی ہے جو ایک بار پھر بڑے پردے پر خوف اور وحشت پھیلائے گی۔ پاکستان شوبز انڈسٹری کے اداکار یاسر حسین فلم میں سیریل کلر جاوید اقبال کا کردار نبھارہے ہیں جبکہ اس فلم میں ان کے ساتھ اداکارہ عائشہ عمر بھی پولیس آفیسر کا مرکزی کردار ادا کررہی ہیں جنہوں نے جاوید اقبال کیس کی تفتیش میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یاسر حسین کی اداکاری ان کے عام روایتی کرداروں سے ذرا ہٹ کر ہے جبکہ عائشہ عمر بھی اپنے گلیمرز اوتار کے بجائے پنجاب پولیس کی وردی اور باس لیڈی کے کردار میں نظر آئیں گی۔ فلم 24 دسمبر کو پاکستانی سنیما گھروں میں جلوہ گر ہوں گی۔
جاوید اقبال کون ہیں؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق 30 دسمبر 1999 کو جاوید اقبال نے ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اعترافی بیان میں کہا کہ میں جاوید اقبال ہوں، 100 بچوں کا قاتل، مجھے نفرت ہے اس دنیا سے، مجھے اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ گرفتاری دینے کے بعد پاکستانی عدالت نے جاوید اقبال 100 بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد ان کی لاشوں کو تیزاب سے تلف کرنے کے جرم میں 16 مارچ 2000 کو 100 بار سزائے موت کا حکم دیا اور کہا کہ مجرم کو اسی زنجیر سے گلا گھونٹ کر مارا جائے گا جس سے وہ بچوں کو قتل کرتا تھا اور موت کے بعد اس کی لاشوں کے ٹکڑے اسی تیزاب کے ڈرم میں ڈالے جائیں گے جس میں وہ معصوم کلیوں کی لاشیں ڈالتا تھا تاہم ایسی نوبت نہیں آئی کیونکہ گرفتاری کے دو سال بعد 9 اکتوبر 2001 کو جاوید اقبال اور اس کا ساتھی لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پائے گئے تھے۔
جاوید اقبال ایسا کیوں کرتا تھا؟
میڈیا رپورٹس کا کہنا ہے کہ جاوید اقبال نے یہ سب پولیس سے انتقام لینے کے لیے کیا تھا، تفتیش کے دوران جاوید اقبال نے اپنے بیان میں بتایا کہ نوے کی دہائی میں پولیس نے اس پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کیا اور اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے، بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے اس کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں تھی، اقبال نے کہا کہ میری ماں میرے لیے روتی تھی اس لیے میں بھی چاہتا تھا کہ 100 مائیں بھی اسی طرح اپنے بچوں کے لیے روئیں۔ مجھے اس دنیا سے نفرت ہے۔
جاوید اقبال کی طریقہ واردات کیا تھا؟
تفتیش کے دوران جاوید اقبال کے گھر میں موجود کچرے کے ڈھیر سے کئی بچوں کی تصاویر، ان کے جوتے اور کپڑے ملے تھے، جاوید اقبال بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے نت نئے ترکیبیں آزماتا تھا کبھی ویڈیو گیمز کی دکان کھول کر تو کبھی فیش آکیوریم کی، اس وحشی درندے نے اپنے ناپاک عزائم کے لیے کم عمر لڑکوں کے لیے جم بھی کھولا تھا، وہ روپ بدل کر اور مختلف کاروباری ترکیبیں سوچ کر معصوم بچوں اور لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتا اور اپنے گھناؤنے جرم کو پورا کرتا تھا۔
Discussion about this post