حکام منافع خور وں کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے جبکہ گوالے بے خوف ہو کر من مانی قیمتوں میں دودھ فروخت کررہے ہیں، عوام بھی مہنگا دودھ خریدنے پر مجبور ہے۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ نے کمشنر کراچی اقبال میمن طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ دودھ کی نئی قیمتوں کا تعین کریں، عدالتی حکم پر کمشنرکراچی نے جواب جمع کرایا، جس میں کہا گیا کہ کراچی میں دودھ 120روپے فی کلو بیچنے کے لیے گوالوں کو پابند کیا گیا ہے ، یاد رہے کہ کراچی میں دودھ کی سرکاری قیمت 94روپے فی کلو سے بڑھا کر 120روپے کرنے کا نوٹی فکشن بھی جاری کردیا گیا ہے، گراؤنڈ ریلیٹی یہ ہے کہ عوام کو اس سرکاری قیمت پر بھی دودھ نہیں مل رہا۔ اُدھر ڈیری فارمرز یہ رونا دھونا کررہے ہیں کہ تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے تو ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے، چارہ بھی مل رہا مہنگا۔اب قیمت نہ بڑھائیں تو پھر کریں تو کیا کریں؟ اس ساری رسہ کشہ میں رُل رہی ہے تو صرف عوام۔ جو 140روپے دے کر کلو بھر دودھ خرید رہی ہے۔ دوسری جانب اس جانب بھی اشارہ کیا جارہا ہے کہ ہوٹل، ریسٹورنٹس اور چائے خانوں میں بھی اس قیمت کا اثر پڑے گا اور چائے کی ایک پیالی بھی مہنگی ہوجائے گی۔
Discussion about this post