سلطانہ بیگم کول کتہ کی کچی بستی میں 2کمروں کی ایک تنگ جھونپڑی میں رہتی ہیں، جن کا گزارہ معمولی پینشن پر ہوتا ہے۔ مگر کوئی بھی انہیں اس حوالے سے جانتا نہیں کہ وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان سے ہیں۔ سلطانہ بیگم دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ آخری مغل بادشاہ کے پڑپوتے مرزا محمد بیدار بخت کی شریک سفر ہیں اور شادی کا اُن کے پاس باقاعدہ ریکارڈ بھی ہے۔ اسی لیے سلطانہ بیگم چاہتی ہیں کہ وہ تعمیرات جو مغل بادشاہوں نے بنائیں،اُس کی ملکیت اُنہیں دی جائے۔
سلطانہ بیگم نے غیر ملکی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ تاج محل بنانے والے شہنشاہوں کی اوالد اب انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ سلطانہ بیگم نے عدالت میں ایک مقدمہ بھی دائر کررکھا ہے، جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ لال قلعے، تاج محل سمیت کئی شاہی یادگاروں کی ملکیت اُنہیں دی جائے کیونکہ وہ مغل بادشاہ کے خاندان سے ہیں۔
سلطانہ بیگم کے مطابق انہیں یقین ہے کہ انہیں انصاف ملے گا اور مغل شہنشاہوں کی تمام تر اراضی مل جائے گی۔ سلطانہ بیگم کا شکوہ ہے کہ بھارتی حکام نے اُن کی شاہی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جبھی وہ اس سلسلے میں بھی عدالت سے رجوع کرچکی ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہی ہے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ہتھیار ڈالنے کے باوجود مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے سبھی بیٹوں کو پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ سلطانہ بیگم کہتی ہیں کہ شاہی اراضی پر بھارتی حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے سلطانہ ظفر کی ملکیت کی درخواست وقت کا ضیاع قرار دے کر خارج کردی لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا کہ سلطانہ بیگم کا شاہی نسب کا دعویٰ جائز بھی ہے کہ نہیں۔ سلطانہ بیگم کہتی ہیں کہ بیوہ ہونے سے پہلے وہ کئی کچی بستیوں کی مکین رہی ہیں۔ مرزا محمد بیدار بخت نے اُن سے اُس وقت شادی کی جب وہ صرف 14برس کی تھیں۔مرزا محمد بیدار بخت، سلطانہ بیگم سے کم و بیش 32سال بڑے تھے۔ جو ساری زندگی اس بات کی جنگ لڑتے رہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے پڑ پوتے ہیں اور اسی تناسب سے انہیں ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ سلطانہ بیگم چھوٹی سی جھونپڑی کے باہر چائے کی دکان بھی چلاتی رہیں لیکن سڑک کو کشادہ کرنے کی وجہ سے اُن کی یہ دکان بھی گرادی گئی۔
Discussion about this post