مری اور گلیات میں برفانی طوفان سے جاں بحق افراد کی تعداد 22 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں 10 مرد، 2 خواتین اور 10 معصوم بچے شامل ہیں۔ سیاحوں کو نکلنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جہاں اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا، وہیں اس بات کا بھی اعلان کیا کہ جس نے بھی لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے خلاف ایکشن ہوگا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ تحقیقات کی جانب بھی اشارہ دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ مری کو آفت زدہ قرار دیے جانے اور ایمرجنسی لگنے کے باوجود بیشتر سیاح اب بھی مری جانے کی ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ وہیں دوسری جانب مری میں پھنسے ہوئے سیاح حکومتی اور ضلعی انتظامیہ کے ناقص انتظامات پر ناخوش ہیں۔ اُدھر اپوزیشن اس سانحے کو حکومتی ناکامی سے تعبیر کررہی ہے۔
جس نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے ایک دن پہلے ٹوئٹ جس میں انہوں نے ایک لاکھ گاڑیوں کے مری میں داخلے کی بات کرتے ہوئے اسے سیاحت کا فروغ قرار دیا تھا۔ اس بیان کو اپوزیشن ہدف تنقید بنا رہی ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اس نازک اور خراب صورتحال پرتنظیمی اجلاس میں شرکت کرنے پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔
ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی سینکڑوں سیاح برف کے تودوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔جنہیں باحفاظت نکالنے کے لیے پاک فوج کے جوانوں کی امدادی کارروائیوں جاری ہیں، جو برف کے تودوں میں پھنسے سیاحوں اور گاڑیوں کو کامیابی کے ساتھ ریسکیو کرنے میں مصروف ہیں۔
اے ایس آئی نوید اقبال خاندان سمیت جاں بحق
اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کے اے ایس آئی نوید اقبال اپنی تین بیٹیوں، ایک بیٹے، ایک بہن، بھانجی اور بھتیجے کےساتھ اس سانحے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ اےایس آئی نوید کی بیوہ اور ایک بیٹا اسلام آباد میں ہی تھے اور وہ اس سفر میں اُن کے ساتھ نہیں تھے ۔
نوید اقبال نے ایک طویل عرصے بعد محکمے سے چھٹیاں لے کر خاندان سمیت مری کا رخ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ برفانی طوفان کی زد میں آگئے اور بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا سوئے۔
نوید اقبال کے لیے ہرایک سے رابطہ کیا، کزن طیب گوندل
نوید اقبال کے کزن طیب اقبال جو صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ” تار” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کزن نوید اقبال اور وہ ساتھ ساتھ ہی نکلے تھے۔ نوید اقبال اپنی گاڑی میں تھے جبکہ طیب گوندل دوستوں کے ساتھ نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی کوسٹر سے روانہ ہوئے۔ اس دوران اُن کا اور نوید اقبال کا مسلسل رابطہ رہالیکن جب وہ برفانی طوفان میں پھنسے تو اس ساری صورتحال کا انہوں نے ضلعی پولیس کو بتایا۔جبکہ طیب گوندل اور نوید اقبال کے درمیان آخری گفتگو ہفتے کی صبح 4 بجے ہوئی۔ جس کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔ اس پریشان کن صورتحال کے پیش نظر طیب گوندل کے مطابق انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات، داخلہ اور یہاں تک کے وزیراعظم عمران خان تک سے رابطہ کیالیکن انہیں کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ ملی۔ طیب گوندل نے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ جس ضلعی انتظامیہ سے بات ہوئی وہ صرف جھوٹے دلاسےدے رہے تھے اور اگر اُنہیں یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی نہیں کیا جارہا تو یقینی طور پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کزن نوید اقبال کوبچانے کے لیے پہنچ جاتے۔
طیب گوندل کا کہنا ہے کہ نوید اقبال دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور حال ہی میں ان کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ ممکن ہے کہ ان کی موت کا سبب دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہوا ہو۔
نوید اقبال اور کزن طیب گوندل کی آخری گفتگو
اے ایس آئی نوید اقبال کا کہنا تھا کہ 20 گھنٹوں سے وہ پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی کرین بھجوادیں۔ہمیں مزید اور کتنا انتظار کرنا پڑےگا۔سب نکلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ مزہ تو تب ہے جب ہم صبح نکل جائیں۔ خدا کرے کوئی سسٹم بن جائے اور یہاں سے نکل جائیں۔
چار دوستوں کی موت
صرف نوید اقبال کا خاندان ہی نہیں اس سانحے میں 4 دوستوں کی زندگی کا چراغ بھی برفانی طوفان میں بجھ گیا۔ سہیل خان، بلال اور اسد کا مردان سے تعلق تھا جبکہ ایک دوست بلال حسین خصوصی طور پر کراچی سے ان تک پہنچا۔ چاروں دوست ایسے پھنسے کہ مری کی سیر کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔ برف باری کے دوران چاروں دوستوں نے زندگی کی آخری سیلفی بھی اترائی۔
ابتدائی رپورٹ
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اُس نے 5 جنوری کو ہی ہائی الرٹ جاری کردیا تھا اور اس جانب اشارہ کیا تھا کہ 6 اور 7 جنوری کو برفانی طوفان آئے گا اسی لیے سیاح مری جانے کی کوشش نہ کریں۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پیش کی جانے والی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 3 دن کے دوران ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری آئیں، ان میں سے 12 ہزارگاڑیاں واپس آئیں اور باقی برف میں پھنس گئیں۔
رپورٹ میں محکمہ موسمیات کے ہائی الرٹ کو جھٹلاتے ہوئے لکھا ہے کہ محکمے نے غیر معمولی برف باری کا نہیں بتایا تھا۔ 5 فٹ سے زائد برف باری کی بھی اطلاع نہیں دی گئی۔ 6 جنوری کی رات سے مری جانے کا راستہ بند کردیا تھا، رش بڑھنے کے باعث سیاحوں کوروکتےرہے، اخبارات میں اشتہارات بھی دئیے، پھر بھی بڑی تعداد میں سیاح مری پہنچ گئے۔
گاڑی برف میں پھنسے تو کیا کریں؟
انسپکٹر جنرل موٹروے انعام غنی کے مطابق کاربن مونوآکسائیڈمیں بونہیں ہوتی، اس کا پتا لگانا بہت مشکل ہے، کاربن مونو آکسائیڈ جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔اگر گاڑی برف میں پھنس گئی ہے اور انجن چل رہا ہے تو کھڑکی ہلکی سی کھولیں، گاڑی کے ایگزاسٹ سائلنسرپائپ سے برف صاف کریں۔ ادھر ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ برف باری ہونے پرمسافر گاڑیوں کا ایندھن بچانے کے لیے اسے بند کردیں۔ کوشش کریں کہ مدد آنے تک پیٹرول کا استعمال نہ کریں۔
دورانِ برفباری، خطرات اور احتیاطی تدابیر!@InamGhani pic.twitter.com/nKkR8pV8wI
— National Highways & Motorway Police (NHMP) (@NHMPofficial) January 8, 2022
گاڑی کو سر راہ کھڑی کرنے کے بجائے سائیڈ میں پارک کریں۔ گاڑی کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر نہ چلائیں کیونکہ اس سے گاڑی میں گھٹن بڑھ سکتی ہے۔
رہنما تحریک انصاف احمد جواد کی تنقید
تحریک انصاف کے رہنما احمد جواد نے بذریعہ ٹوئٹ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ آپ نے تو 2 دن پہلے معیشت کی مظبوطی کا ذکر کر دیا تھا اور محکمہ موسمیات نے الرٹ بھی جاری کر دیا تھا تو کل رات جو قیمتی جانیں چلی گئیں،کیا انھیں بھی معاشی اعشاریوں میں شامل کر لیں؟ پارٹی کا بیانیہ اپنے ضمیر سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا،کیونکہ جان تو خدا کو دینی ہے۔
آپ نے تو 2 دن پہلے معیشت کی مظبوطی کا ذکر کر دیا تھا اور محکمہ موسمیات نے الرٹ بھی جاری کر دیا تھا تو کل رات جو قیمتی جانیں چلی گئیں،کیا انھیں بھی معاشی اعشاریوں میں شامل کر لیں؟ پارٹی کا بیانیہ اپنے ضمیر سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا،کیونکہ جان تو اللہ کو دینی ہے۔ @ImranKhanPTI https://t.co/jDFvaHuGCR
— Ahmad Jawad PTI (@AhmadJawadBTH) January 8, 2022
کیا ذمے داروں کا تعین ہوسکےگا؟
عام طور پر یہ روایت رہی ہے کہ تحقیقات کے لیے مختلف کمیٹیوں کا اعلان کردیا جاتا ہےجن کی ٹکڑوں میں ہونے والی تفتیش ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن پھر کسی اور حادثے یا واقعے کے رونما ہونے کے بعد تحقیقات کرنےو الی کمیٹیاں بھی غیرمتحرک اور ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔ اسی تناظر میں بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ سانحہ مری کی تحقیقات بھی ایک نہ ایک دن سرد خانوں کی زینت بن جائے گی۔ اس لیے کوئی امید لگانا بے سود ہے۔
Discussion about this post