سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ویڈیو نے پولیس کے رویے پر کئی سوال اٹھا دیے جس کے بعد آخرکار بلوچستان حکومت نے ایکشن لے ہی لیا۔ کوئٹہ کے قائد آباد پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے تین خواتین کو پکڑ کر موبائل میں دھکیلا۔ بدقسمتی سے ان خواتین کے لیے کوئی لیڈی اہلکار نہیں تھی۔ ستم ظریفی یہ رہی کہ ان خواتین کو مارا پیٹا بھی گیا اور دھکے بھی دیے گئے۔ قصہ صرف یہ تھا کہ ان میں سے ایک خاتون زینب کے والد نے اس کے اغوا کی ایف آئی آر قائد آباد پولیس اسٹیشن میں درج کرائی تھی۔ والدین کی نشاندہی پر ہی پولیس نے لڑکیوں کو وین میں بٹھایا جن میں زینب اور ان کی دو سہیلیاں شامل تھیں۔
ایس ایس پی پولیس کے مطابق زنیب اپنی رضامندی سے سہیلیوں کے ساتھ رہ رہی تھی لیکن والدین اس بات کے خلاف تھے۔ زینب نے احتجاج کیا تو پولیس ہتھے سے اکھڑ گئی اور لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔سوشل میڈیا پر ہر کسی نے پولیس کے رویے پر کڑی تنقید کی۔پاکستانی قانون کے تحت کسی بھی خاتون کو لیڈی اہلکار کے بغیر ناصرف گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ناہی اس کی تلاشی لینے کا حق کسی مرد پولیس اہلکار کو ہے۔
اگر یہ خواتین کسی جرم میں مطلوب بھی تھے تو خواتین کانسٹبلز کی مدد کیوں نہیں لیا گیا؟اگر سب اپنی عدالتیں خود سڑکوں پر لگائے گے تو عدالتوں کو تالے لگا جانی چاہئے۔@AQuddusBizenjo سے اس معاملہ کا فی الفور نوٹس لینے اور ان سب پولیس اہلکاروں کے خلاف انتظامی کاروائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔ pic.twitter.com/WSKGVoBdDc
— Jalila Haider جرقہ در ظلمت، انفجار در سکوت (@Advjalila) January 17, 2022
جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی اس ویڈیو کے بعد بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے فوری طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کرکے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ ان کے مطابق گرفتاری ضروری تھی تو لیڈی اہلکار کو کیوں ساتھ نہیں رکھا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس غیر ذمے دارانہ، نامناسب رویے اور ہتک آمیز سلوک پر پر ایڈیشنل ایس ایچ او نوید مختار اور دیگر اہلکاروں کو معطل کردیا۔
Discussion about this post