نو برس کا ابصار مینا ر پاکستان دیکھنے کے شوق میں مظفر آباد سے لاہور آیا تھا، ولولہ تھا جوش تھا اور آنکھوں میں یہ ستارے جھلمارہے تھے کہ وہ اُس مقام کو دیکھے گا جہاں پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی، خالہ کی شادی بھی تھی اور خوشیوں بھرا ماحول تھا۔ ایسے میں فرمائش کر ڈالی نئے جوتوں کی تو سوتیلے والد اور والدہ نے انار کلی کا رخ کیا۔ ابصار کی خواہش تھی کہ نئے جوتے پہن کر ہی مینار پاکستان کا رخ کرنے کے ساتھ شادی میں بھی شرکت کرے گالیکن ننھے منے سے ابصار کے مقد ر میں کچھ اور لکھا تھا،مظفر آباد سے موت اسے کھینچ کر لاہور کی انار کلی بازار تک لے آئی،جہاں خوف ناک بم دھماکے میں اس کی جان چلی گئی۔
تیسری جماعت کا ابصار جوتوں تو خرید نہ سکا لیکن ننگے پیر ہی موت کی وادی پہنچ گیا،ابصار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ تر کراچی میں رہتا تھا۔ اور مظفرآباد میں اس کا آبائی گھر تھا۔ جہاں وہ اسکول چھٹیاں گزارنے کے بعد لاہور آیا تھا۔ اُس کے ماموں کے مطابق ابصار کے پیٹ میں بم دھماکے سے نکلنے والے لوہے کے ٹکڑے لگے، جو اُس کی موت کا سبب بن گئے،زخمی حالت میں اسپتال لایا گیا۔ جہاں پھر اُس کی ننھے منے دل کی دھڑکن بند ہوتی چلی گئی، سب کا لاڈلہ سب کی آنکھوں کا تارا اب اہل خانہ کے لیے ایک خواب بن گیا ہے۔
ادھر کراچی میں اُس کے نانا نانی تو واپسی میں اُسے سائیکل کا تحفہ دے کر خوشگوار حیرت میں مبتلا کرنا چاہتے تھے لیکن اب وہ خود صدمے سے دوچار ہیں۔ والدہ اور سوتیلے والد غم سے نڈھال ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ انارکلی میں ان کا لخت جگر یوں اچانک ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے گا۔والدہ حافظ قرآن بنانا چاہتی تھی اب رو رو کر اسے بس یاد ہی کررہی ہے۔
Discussion about this post