یکم فروری 1981، ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان بیسٹ آف فائیو فائنل ورلڈ سیریز کا تیسرا ون ڈے کھیلا جا رہا تھا، ایک جانب ملبورن کی یہ سنہری شام بدنام زمانہ ،” انڈر آرم” واقعے کی وجہ سے کرکٹ کی تاریخ کو سیاہ کر گئی تو دوسری طرف اسی شام، "انڈر آرم” واقعے کی وجہ سے آسٹریلوی وکٹ کیپر روڈنی مارش کا نام تاریخ کے پنوں میں سنہری الفاظ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔
آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ پچاس اوورز میں 235 رنز بنا ڈالے، جواب میں نیوزی لینڈ نے ہدف کا تعاقب نہایت عمدگی سے کیا، آخری اوور کی آخری گیند پر نیوزی لینڈ کو میچ برابر کرنے کے لیے پانچ، جبکہ جیت کے لیے چھ رنز درکار تھے۔
نیوزی لینڈ کے بلے باز میک کیچنی، آخری بال پر چھکا لگانے کا ذہن بنا رہے تھے، اسی اثنا میں، آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل دوڑتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی ٹریور چیپل کے پاس گئے جو میچ کی آخری گیند ڈالنے کی تیاری کر رہے تھے۔ دونوں میں کچھ دیر گفتگو ہوئی اور گریگوری چیپل نے امپائر کو بتایا کہ وہ بیٹسمن کو بتا دیں کہ ٹریور چیپل اپنی آخری بال انڈر آرم کریں گے۔ گو اس وقت تک انڈر آرم قانون کی ممناعت متفقہ طور نہیں اپنائی گئی تھی، لیکن اس طرح کی حرکت کھیل کی روح کے منافی تھی اس طرز عمل پر بعد میں چیپل برادران کو سخت خفت کا سامانا بھی کرنا پڑا۔
امپائر نے جب باولر کے اس فیصلے سے متعلق میک کیچنی کو مطلع کیا تو وکٹ کے پیچھے کھڑے راڈ مارش نے، بیٹسمین سے زیادہ پر زور آواز میں مخصوص آسٹریلوی لہجے میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنے کپتان سے اختلاف کیا اور کہا تم ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن ٹریور نے کپتان کی بات پر عمل کیا اور بال وکٹ کے قریپ آ کر ٹھیل دی، بال بغیر ٹھپہ کھائے لڑھکتے ہوئے بیٹسمین تک گئی اور میک کیچنی نے بال روک کر غصے سے بیٹ کو فضا میں اچھال دیا۔ آسٹریلیا میچ جیت گیا، روڈ مارش دوڑتے ہوئے مایوس بیٹسمینوں کے طرف گئے ان سے ہاتھ ملایا اور ان کی تعریف اور شائد اپنی جانب سے شرمندگی کا اظہار بھی کیا۔
سنہ 1977 میں ملبورن کرکٹ گراونڈ میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ کرکٹ کے سو سال مکمل ہونے پر تاریخی میچ کھیلا گیا، ملکہ برطانہ اور پرنس فلپ اس میچ کو بطور خاص دیکھنے آئے تھے۔ میچ کا آخری روز تھا، انگلش بلےباز ڈیرک رینڈل آسٹریلیا کی جیت میں آخری رکاوٹ بنے ہوئے تھے، 160 کے انفرادی اسکور پر گریک چیپل کی گیند رینڈل کے بیٹ کا باہری کنارہ لیتے ہوئے وکٹ کیپر مارش کے ہاتھوں میں پہنچ گئی، چیپل نے اپیل کی جو امپائر نے منظور کر لی۔ اور رینڈل پویلین کی جانب چلنا شروع ہو گئے، اسی اثنا میں راڈنی مارش دوڑتے ہوئے امپائر کے پاس گئے اور بتایا کہ بال ان کے ہاتھوں تک پہنچنے سے ذرہ پہلے ہی زمین پر ٹھپہ کھا چکی تھی۔ امپائر نے رینڈل کو واپس بلانے کا اشارہ کیا، گریگ چیپل نے روڈنی مارش کو بے اختیار کہا کہ روڈنی یہ تم کیا کر رہے ہو؟ مارش کا دو ٹوک جواب تھا کہ بال مجھ تک نہیں پہنچی ، رینڈل آوٹ نہیں ہوا۔
کرکٹ آسٹریلیا میں روڈنی مارش نے متعدد کلیدی عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ مارش کو کھیل کی روح سمجھانے اور کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے لیکچرز پر مدعو کیا جاتا تھا، 2015 میں میلبورن کرکٹ کلب اسپرٹ آف کاوڈری لیکچر میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دونوں واقعات کی وجہ سے میری بہت تعریف کی جاتی ہے جس کا میں مستحق نہیں، مجھے سکھایا گیا تھا کہ کھیل دیانت داری سے کھیلو اور میں نے یہی کیا۔
مارش کھیل میں دیانت کے ساتھ مقابلے پر یقین رکھتے تھے، اسی لیکچر میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وہاب ریض اور شین واٹسن کے واقعے کا بھی ذکر کیا جو ایڈیلڈ اوول میں کھیلے گئے 2015 ورلڈ کپ کواٹر فائنل کے دوران پیش آیا۔ ان کے مطابق وہاب کے باونسرز نے واٹسن کو پریشان کیا، ان دونوں کھلاڑیوں کو انعام دینے کی بجائے، آن فیلڈ طرز عمل کے نام پر جرمانہ کر دیا گیا۔ ان کے مطابق وہ کرکٹ کی روح سے متعلق قوانین کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، لیکن اس طرح کے قوانین ان کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔
ان کے سابق کرکٹ کے ساتھی کیری او کیف کے مطابق، مارش اپنے اصولوں میں سانڈ کی طرح مظبوط تھے، اپنے کھیل کے دنوں میں ان کی دیانت اور ایمانداری کے سبب ان کے ٹیم کے ساتھی ان کو روحانی استاد کا درجہ دیتے تھے۔ روڈنی مارش کی وفات کے ساتھ ستر کی دہائی کی کرکٹ کا ایک اور ستارہ غروب ہو گیا۔
Discussion about this post