سنگدل اور سفاک باپ نے صرف 7 دن کی ننھی پری کو موت کی آغوش پہنچادیا، قصور صرف یہ تھا کہ وہ بیٹی تھی، جس کا وہ خواہش مند نہیں تھا ، اس تو اپنی نسل چلانے کے لیے بیٹے کی ضد تھی، ۔جبھی تو بے رحم اور جلاد شاہ زیب کو سات دن کی اس فرشتے کا وجود ناگوار گزرا۔
ایسے میں جب صنف نازک لاکھ مخالفتوں کے باوجود اپنا دن منارہی ہیں، اسی سفاکیت پر ہر ایک کا دل دہل گیا ہے، رحمت کی پری نے سات دن پہلے میانوالی کے محلہ نور پورہ میں آنکھ کھولی تھی، جس پر بے حس باپ خوش ہونے کے بجائے اس بات پر غصے میں تھا کہ بیٹا کیوں نہیں ہوا؟ شریک سفر کو طعنے دیتا، بیٹی کو پیار بھری نظر بھر کر نہیں دیکھتا۔ ۔سینے سے لگانے کے بجائے اُس نے اس معصوم کلی کو دل ہی دل میں روندنے کا منصوبہ بنالیا تھا۔
سات دن تک وہ اس پھول کا وجود برداشت کرتا رہا، ایسے میں جب گھر میں پہلی اولاد کی مبارک باد دینے والوں کا رش لگا تھا اس بھیڑیے نما انسان نے پستول نکالا اور دنیا و جہاں سے بے خبر سوئی ہوئی بیٹی پر تین گولیاں چلا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا، یہ وحشیانہ عمل کرنے کے بعد شاہ زیب بھاگ نکلا لیکن جس نے یہ سنا اس کی روح تک کانپ اٹھی ہے۔
اس وحشی باپ کو گولیاں برساتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں آیا کہ یہ پیاری پری جب بڑی ہوگی تو اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اس کا دامن پکڑے گی۔ اسے توتلی زبان میں پکارے گی، دروازے پر کھڑے ہو کر اس کو خدا حافظ کہے گی۔ اس کی گود میں بیٹھ کر فرمائشیں کرے گی اور پھر ایک دن زندگی کے ہر شعبے میں اسی سنگ دل باپ کا نام روشن کرے گی لیکن اس کے مقدر میں اس کی موت تھی اس کا تو اسے بھی پتا نہ ہوگا۔
پھر سب سے بڑا سوال تو یہ تھا کہ کیا وہ خود اپنی مرضی سے اس دنیا میں آئی تھی؟ جو اسے بن کھلے اس کے سگے باپ نے مرجھا دیا؟
Discussion about this post