یہ ایک ماں کی آرزو ہے، یہ ایک فریاد ہے، اُس بیوی کی جو شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آگئی تھی۔ جو مقابلہ کرتے کرتے حوصلے پست کرچکی تھی، جس نے تھک ہار کر موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔ رحیم یار خان کی میری روز، جو خواتین کے خلاف جرائم کی تفتیش کرنے والے پولیس سیل کی انوسٹی گشن آفیسر تھی، خود ڈومیسٹک وائلنس کا شکار ایسی بنی کہ سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔
پولیس انسپکٹر میری روز کا شوہر بھی محکمہ پولیس میں تھا۔ ظلم و تشدد کی وہ داستان روز لکھتا جس نے باہمت اور بلند حوصلہ میری روز کے اوسان خطا کردیے تھے۔ دو معصوم سی بیٹیوں کی ماں میری روز تنگ آچکی تھی اور پھر ایک دن اُس نے زندگی کا وہ فیصلہ کیا کہ جس سے کم از کم اسے وحشیانہ تشدد سے نجات مل گئی۔
میری روز نے زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کرلی لیکن کمرے میں موجود آئنے پر لپ اسٹک سے والدہ کو بس اپنا یہ آخری پیغام دے گئی کہ دعا کرنا کہ میری جان آسانی سے نکل جائے، میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرانا جو ذمے داری اٹھاسکے۔ میری روز کو اسپتال لا کر زندگی بچانے کی کوشش کی گئی لیکن پولیس کی وردی میں ہی اُس نے جان دے دی، میری روز کے آخری نوٹ سے یہی پتا چلتا ہے کہ اس کی خودکشی کی وجہ گھریلو ناچاقی رہی۔
میری روز کے شوہر سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے لیکن میری روز تو چلی گئی، ایک ایسا پیغام چھوڑ کر جو سمجھنے والوں کے لیے بہت بڑا اشارہ ہے۔
Discussion about this post