عالمی کپ 1992 کا پاکستان نے جب آغاز کیا تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ ٹیم فاتح بن کر لوٹے گی۔ پاکستان کا پہلا ہی میچ 23 فروری 1992 کو کسی ڈرؤانے خواب سے کم نہیں تھا۔ رمیز راجا نے پورے 50 اوورز میں انتہائی سست بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی سنچری تو بنائی لیکن ٹیم کا اسکور 220 رنز سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جس کے جواب میں برائن لارا اور ڈیسمنڈ ہینز نے پاکستانی بالرز کی ایسی دھنائی کہ ویسٹ انڈین ٹیم یہ میچ 10 وکٹوں سے جیتی ۔ بہرحال اس ابتدائی میچ میں کپتان عمران خان انجری کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔ دوسرا میچ آسان ٹیم یعنی زمبابوے سے رہا۔ عامر سہیل نے سنچری بنائی اور ٹیم کا اسکور پہنچا 254 رنز پر جس کے جواب میں پوری زمبابوے کی ٹیم صرف 201 رنز پر ڈریسنگ روم لوٹ گئی۔ وسیم اکرم نے 3 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔ اگلا میچ انگلینڈ سے تھا، جو پاکستانی ٹیم کے لیے ایک اور خوف ناک خواب بن گیا۔ 74 رنز پر ٹیم کی بیٹنگ خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ وہ تو بھلا ہو بارش کا کہ اس نے عبرت ناک شکست سے دور رکھا اور پاکستان کو 2 نہیں ایک پوائنٹ مل گیا اور یہی ایک پوائنٹ ایونٹ میں پاکستان کے لیے معاون بن گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میچ میں بھی عمران خان نہیں کھیلے تھے۔ بھارت کے خلاف میچ میں بھی پاکستان کے دامن میں شکست کا داغ لگ گیا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ اب ایسی ٹیم اگلے مرحلے تک رسائی کرے۔ رہی سہی کسر جنوبی افریقا کے خلاف میچ نے پوری کردی۔ اس ہار کے بعد تو ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔ اسی میچ میں جونٹی رہوڈز نے ناقابل شکست انضمام الحق کا رن آؤٹ کیا۔
اندازہ لگائیں کہ اس ٹیم نے 5 میچز کھیلے صرف ایک جیتا اور ایک میچ غیر نتیجہ خیز جبکہ 3 میں شکست۔ ہر کھلاڑی کا سرجھکا ہوا تھا ۔ کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ وہ سیمی فائنل تک بھی پہنچ جائیں لیکن کپتان عمران خان پرامید تھے اور اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ آسٹریلیا کے خلاف اگلے میچ میں 48 رنز سے شکست دی۔ لیکن ابھی بھی دلی بہت دور تھی ۔
سری لنکا کو ہرانے کے بعد ٹیم میں نیا حوصلہ اور جوش اور جذبہ آگیا۔ لیکن مقابلہ تھا لیگ کے آخری میچ میں ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست رہنے والی میزبان نیوزی لینڈ سے ۔ جس میں پاکستانی ٹیم نے زبردست کارکردگی دکھا کر 7 وکٹوں سے یکطرفہ شکست دے کر سیمی فائنل کھیلنے کے چراغ روشن رکھے وہیں سب کو دنگ بھی کردیا۔اب پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا چانس صرف یہ تھا کہ اگر آسٹریلیا ، ویسٹ انڈیز کو ہرا دے۔ اور پھر ہوا کچھ ایسا ہی ۔
سیمی فائنل میں پھر نیوزی لینڈ سے ٹاکرا تھا۔ جسے پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 4 وکٹوں سے شکست دی۔ میچ کی خاص بات جہاں عمران خان کے 44 ، جاوید میاں داد کے ناٹ آوٹ 57 وہیں انضمام الحق کے 60 رنز رہے۔ یوں پاکستان پہلی بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے جارہا تھا ۔ جس کا مقابلہ اُسی ٹیم یعنی انگلینڈ سے تھا جس نے اسے 74 رنز پر ڈھیر کیا تھا لیکن فائنل میں پاکستانی ٹیم بپھرے ہوئے شیر کی طرح انگلش بالرز اور پھر بلے بازوں پر جھپٹی ۔
کپتان عمران خان نے 72 رنز کی شاندار اننگ کھیلی تو جاوید میاں داد نے 58 رنز بنا کر ٹیم کے اسکور کو قابل قدر رخ دیا۔ آخری لمحات میں وسیم اکرم اور انضمام الحق نے برق رفتاری سے اسکور میں اضافہ کیا۔ انگلینڈ کو ہدف ملا 250 رنز کا ۔ پاکستان نے ابتدا سے ہی دباؤ برقرار رکھا ۔ لیکن ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ میچ پاکستان کی گرفت سے نکلنے لگا لیکن وسیم اکرم کی تاریخ ساز دو گیندوں نے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔
اور پھر جب رمیز راجا نے عمران خان کی گیند پر آخری انگلش بلے باز کا کیچ پکڑا تو پاکستان عالمی کپ کا فاتح بن چکا تھا۔ وسیم اکرم فائنل کے مین آف دی میچ ٹھہرے جبکہ عمران خان کے ہاتھوں میں ٹرافی آئی ۔
ایونٹ میں پاکستان کی جانب سے جاوید میاں داد نے سب سے زیادہ 437 رنز اسکور کیے۔ جبکہ وسیم اکرم نے اٹھارہ کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا۔ اور یوں پاکستان نے ناممکن کوممکن کردکھایا۔
ایک ایسا خواب سچ ہوا ۔ جس کی ۤآرزو سب کو تھی ۔ ٹیم کی وطن واپسی پر شاندار استقبال کیا گیا۔ ٹیم کو کئی اعزازات سے نوازا گیا۔
Discussion about this post