برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نومبر سے قبل نگراں حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آجائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہیے۔ یہ اعلان خوش آئند ہے، جس سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے۔ خواجہ آصف کے مطابق فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب ’انسٹی ٹیوشنلائز‘ ہونا چاہیے جیسا کہ عدلیہ میں ہوتا ہے اور اس بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں ہوتی۔ انہیں پتا ہے کہ 2028 میں کس نے چیف جسٹس بننا ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر بحث کے بجائے طریقہ کار 100فی صد میرٹ پرہو۔ یہ اہم معاملہ ہے، جسے سیاسی بحث کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
وفاقی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی فہرست میں ہوا تو بالکل غور کیا جائے گا۔ ان سب ناموں پر غور ہوگا جو فہرست میں ہوں گے۔ اگر وزیر دفاع 5 افسران کے نام وزیراعظم کے پاس لاتا ہے اور ان میں فوج، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام بھی تجویز کرتی ہے تو خواجہ آصف کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ وزارت دفاع یا وزیراعظم کے پاس یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ 5 کی بجائے 3 یا 8 نام بھیجیں۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو عمران خان کے بیانیے سے کوئی شکست نہیں ہورہی۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی اور صورتحال مستحکم ہوجائے گا۔
Discussion about this post