سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ نے از خود نوٹس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنے بینج نے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب اور سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کردیے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ نظام کو اندورنی اور بیرونی خطرات ہیں۔ ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے؟ چیف جسٹس کے مطابق ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو بدلا گیا۔ اسی طرح ڈی جی ایف آئی اے ثنا عباسی اور ڈاکٹر رضوان کے ساتھ بھی کچھ ہوا۔ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیشی افسر کو کہا کہ نئے وزیراعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پراسیکیوشن برانچ اورتفتیش میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ افسران کو ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ ٹرانسفر پوسٹنگ کیے گئے۔ جس پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ڈی جی ایف آئی اے اور چیئرمین نیب سے تحریری جواب بھی طلب کرلیا۔ عدالت کے مطابق ای سی ایل پر نام ڈالنے اور نکالنے کا طریقہ کار اگر بدلا ہے تو وہ پیش کیا جائے۔ گزشتہ 6ہفتے میں جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے، ان کی فہرست بھی عدالت کو فراہم کی جائے۔ احتساب اور دیگر عدالتوں میں ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ سیل کرکے رپورٹ دی جائے۔ سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں کے نیب ڈی جیز کو بھی نوٹس جاری کردیے ہیں۔ یہی نہیں چاروں صوبوں کے پراسیکیوٹرجنرل، ہیڈ آف پراسیکیوشن ایف آئی اے اور نیب کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس ازخود نوٹس کی سماعت اب اگلے جمعے تک ملتوی کردی ہے۔
Discussion about this post