سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت کی طرف سے دائر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس تقاریر میں کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو سری نگر ہائی وے میں جلسہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عالت نے صرف آئینی حقو ق کی خلاف ورزی پر حکم جاری کیاتھا ، ممکن ہے عمران خان کے پاس پیغام درست نہ پہنچا ہو، اس بیان کے بعد کیاہوا اٹارنی جنرل یہ بتائیں ، معلوم ہوا ہے کہ شیلنگ ہوئی اور لوگ زخمی بھی ہوئے، عدالتی حکم میں فریقین کے درمیان توازن کی کوشش کی گئی تھی ، پی ٹی آئی ایک ماہ میں 33جلسے کرچکی ہے ، تمام جلسے پرامن تھے ، توقع ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنی ذمہ داریوں کو بھی احساس ہوگا۔
بشکریہ سوشل میڈیا
وفاقی حکومت کی درخواست میں موقف اٹھایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے مطابق تحریک انصاف کو پرامن احتجاج کی یقین دہانی پر اجازت دی گئی تھی۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے جلسوں میں تحفظ دیا تھا لیکن بدھ کو پی ٹی آئی کارکنوں نے 31 پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔ فائر بریگیڈاور بکتر گاڑیوں کو آگ لگائی گئی، حکومت کو کل رات فوج طلب کرنی پڑی تھی ۔ عمران خان نے کارکنوں کوواپس جانے کانہیں کہا ، ان کے خلاف کارروائی نہ ہوئی توسب عدالتی یقین دہانی پر عمل نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کچھ بدھ کو ہوا وہ آج ختم ہوچکا ہے۔ انتظامیہ کے اختیارات عدالت استعمال نہیں کرتی۔ کل سڑکوں پر صرف کارکن تھےلیڈر نہیں، کارکنوں کو قیادت ہی روک سکتی ہے جو موجود نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ کیس نمٹا رہے ہیں کہ راستے کھل چکے ہیں۔ ضروری سمجھا تو کیس بحال بحال کردیں گے۔سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف کارروائی کی حکومتی درخواست نمٹانے کی ہدایت کی۔
Discussion about this post