اتوار کو سابق وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر شیئر کی، جس کے ساتھ انہوں نے لکھا کہ” لندن 1930 کی تاریخی گول میز کانفرنس جس میں قائداعظم اور اقبال دونوں موجود تھے۔ یہ تصویر میرے خاندان کیلیے فخر کاباعث ہے کیونکہ اس میں میرے دادا کےبھائی محمدزمان خان(جن کے نام پر زمان پارک قائم کیاگیا) اور میرے خالو جہانگیر خان بھی موجود ہیں (بائیں جانب سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر) ۔ عمران خان کی اس ٹوئٹ کو ہزاروں صارفین نے ری ٹوئٹ کیا۔ )
لندن 1930 کی تاریخی گول میز کانفرنس جس میں قائداعظم اور اقبال دونوں موجود تھے۔
یہ تصویر میرے خاندان کیلیے فخر کاباعث ہے کیونکہ اس میں میرے دادا کےبھائی محمدزمان خان(جن کے نام پر زمان پارک قائم کیاگیا) اور میرے خالو جہانگیر خان بھی موجود ہیں (بائیں جانب سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر) pic.twitter.com/MCVSGcyqXx— Imran Khan (@ImranKhanPTI) August 7, 2022
بہرحال تحقیق کاروں نے عمران خان کے اس دعوے کی نفی کردی ہے۔ اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ عمران خان نے جس تصویر کو شیئر کیا وہ گول میز کانفرنس کی نہیں بلکہ اس کے بعد ہونے والے عشائیہ کی ہے۔جبکہ بیشتر صارفین نے ان شرکا کی فہرست بھی شیئر کی،جو اس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے بتائے گئے اشخاص کے نام اس فہرست میں شامل نہیں۔ ہاں ایک سرکاؤس جی جہانگیرجونیئرضرور شریک تھے۔ صارفین کے مطابق جس جہانگیر خان کو وہ اپنا خالو تصور کررہے ہیں۔ وہ عین ممکن ہے کہ سرکاؤس جی جہانگیرجونیئرہوں۔
اسی تصویر کو عمران خان نے 14 اگست 2018 کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ لندن میں 1932 میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس کی تاریخی تصویر میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ساتھ میرے خالو ڈاکٹر جہانگیرخان اور میری والدہ کے چچا زمان خان ( جن کے نام سے زمان پارک منسوب ہے) بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
یعنی عمران خان آج جن محمد زمان خان کو دادا کے بھائی بتارہے ہیں، وہ 2018 میں ان کی والدہ کے چاچا تھا۔ اسی طرح 4 سال پہلے انہوں نے گول میز کانفرنس 1932 میں کرادی تھی۔عمران خان کی اس غلطی پرصارفین دلچسپ تبصرے پوسٹ کررہے ہیں۔
گول میز کانفرنس کب ہوئی تھی؟
لندن میں پہلی گول میز کانفرنس کا آغاز نومبر 1930 سے ہوا، جو جنوری 1931 تک جاری رہی۔ جس کا مقصد غیرمنقسم ہندوستان کی آزادی اور وہاں رہنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ مختلف ریاستوں میں جدا گانہ انتخاب کرائے جائیں۔ اسی طح جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں تھے، وہان انہیں زیادہ نمائندگی دی جائے۔ اس کانفرنس کے دوران برصغیر کے رہنماؤں نے مختلف تجاویز دیں اور انگریز سرکار پر زور دیا گیا کہ وہ ان پر عمل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ان رہنماؤں کے ساتھ مل کر طے کریں۔ گول میز کانفرنس کے مختلف سیشن ہوتے رہے ہیں۔
Discussion about this post