اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکانے کے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہرمن کی سربراہی میں عدالتی لارجر بینچ سماعت کررہا تھا۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو تحریری جواب جمع کرایا گیا، اس کی امید نہیں تھی۔ 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں لیکن تحریری جواب سے ذاتی طور پر دکھ ہوا۔ ماتحت عدلیہ جن حالات میں کام کررہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے۔ چیف جسٹس کے مطابق جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات واپس نہیں جاتی، عمران خان جیسے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، توقع کررہے تھے کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی۔
Chairman Imran Khan reached Islamabad High Court.pic.twitter.com/qZO1kr85c8
— PTI Islamabad (@PTIOfficialISB) August 31, 2022
چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ 3 سال کے دوران بغیر کسی خوف کے ٹارچر کا ایشو اٹھایا۔ عمران خان کے جواب سے اندازہ ہوا کہ انہیں احساس ہی نہیں کیا ہوا؟ اسد طور اور ابصار عالم کے مقدمات دیکھ لیں۔ 3 سال یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی، کاش اس وقت بھی آواز اٹھاتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو معاملہ واپس بھجوایا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں، اُن کی اور سپریم کورٹ کے فاضل جج کی تصویر سیاسی جماعت کا سربراہ بنا کر وائرل کی گئیں، اُن کے نام پر بیرونِ ملک فلیٹ کی غلط معلومات فراہم کی گئیں ۔ جواب عمران خان کے قد کاٹھ کے لیڈر کے مطابق نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب عمران خان نے تقریر کی تو معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التوا تھا۔ عدالت نے ایک بار پھر عمران خان کو 7 دن کی مہلت دیتے ہوئے تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
Discussion about this post