سوشل میڈیا پر کورنگی انڈسٹریل ایریا میں قائم آرٹسٹک ملینئر کمپنی میں خاتون ورکر کے ساتھ زیادتی کے واقعے کی گونج ہے۔ اس بھیانک کہانی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ متعلقہ خاتون کو اوور ٹائم کے بہانے فیکٹری میں روکا گیا اور کم و بیش 20 افراد نے خاتون کے ساتھ ریپ کیا۔ دعویٰ تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ متعلقہ خاتون کو نشہ آور مشروب پلا کر یہ سارا مکروہ عمل کیا گیا اور پھر اسے مار بھی دیا گیا۔ جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر چاروں طرف پھیلا دی گئی۔ ہیش ٹیگ بھی بنادیا گیا۔ پوسٹرز بھی سوشل میڈیا پر نظر آنے لگے ۔
المیہ تو یہ ہے کہ کسی خاتون کی ویڈیو کو یہ کہہ کر اپ لوڈ کردیا گیا کہ یہ اُسی خاتون ورکر کی ہے اور پھر مطالبہ کیا گیا کہ متعلقہ کمپنی کے خلاف ایکشن ہو اور زیادتی کرنے والوں کو سزا دی جائے لیکن یہ مطالبات صرف سوشل میڈیا پر ہی ہیں ۔ جو الزام لگا رہا ہے وہ آگے بڑھ کر سامنے نہیں آرہا ۔ اس واقعہ کی کوئی مصدقہ اطلاع، کوئی تصویر، کوئی بیان کچھ بھی موجود نہیں، نا ہی کوئی پولیس تک رسائی کررہا ۔
کیا واقعی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ؟
دراصل اس واقعے کی بازگشت اتوار کو ہوئی تھی اور اب نجانے کیسے کسی خاص مقصد کے تحت اسے اور مشہور کیا جارہا ہے ۔ پولیس حکام کا اس سلسلے میں یہی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کا نجی کمپنی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا کوئی واقعہ کمپنی میں پیش نہیں آیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ کمپنی انتظامیہ سے کچھ افراد بلیک میلنگ کرکے رقم بٹورنا چاہتے تھے۔ دعویٰ تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ کمپنی سے نکالے ہوئے کچھ ناراض ملازمین کی یہ کارستانی ہے جنہوں نے کسی دوسرے مقام کے واقعہ کو بنیاد بنا کر کمپنی کے خلاف مورچہ بنالیا ہے ۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اس ساری صورتحال میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر کام کرنے والی کمپنی کیا کررہی ہے ؟ وہ کیوں اپنے تردیدی موقف کو پیش کرنے میں تاخیر سے کام لے رہی ہے۔ بالخصوص اس بات کو جانتے ہوئے کہ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف بھرپور مہم جاری ہے۔ کمپنی کی خاموشی اس سارے واقعے کو اور مشکوک بنانے کے ساتھ شر انگیزی پھیلانے والوں کو اور حوصلہ دے رہی ہے۔
چھیپا ذرائع کیا کہتے ہیں؟
چھیپا ذرائع کے مطابق کورنگی پارک میں چند دنوں پہلے ایک لڑکی کی لاش تو ملی تھی لیکن اِس کا تعلق کورنگی کمپنی سے نہیں تھا۔ بلکہ وہ لڑکی ڈرگ کے زیادہ استعمال کے باعث موت کی نیند سو گئی اورچھیپا اُس کی لاش کو اٹھانے گئی تو کسی نے ویڈیو بنائی اور اب یہ مشہور کیا جارہا ہے یہ کورنگی کمپنی سے ملنے والی لڑکی کی لاش ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس واقعے کے سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اعلی حکام حرکت میں آئے ہیں اور اس سے متعلق اب تحقیقات بھی وسیع کی گئی ہیں تاکہ سچ سامنے لایا جاسکے۔
صارفین ہوشیار رہیں
یہ واقعہ اس طرز عمل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ کوئی بھی کسی کے خلاف سوشل میڈیا کا سہارہ لے کر اس کو بدنام کرسکتا ہے اور افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ صارفین ان کے پروپیگنڈے اورجھانسے میں آجاتے ہیں اور غیر دانستہ طور پر تحقیق کیے بغیر ان کی خوف ناک اور خطرناک مہم کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔
Discussion about this post