اسلام آباد ہائی کورٹ میں خاتون جج زیبا چوہدری کے خلاف بیان پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ بینچ کی سربراہی چیف جسٹس اطہر من کررہے تھے۔ عدالت کا موقف تھا کہ عمران خان نے دوبارہ جو جواب جمع کرایا ہے وہ غیر تسلی بخش ہے۔ اسی لیے اب 22 ستمبر کو ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ عدالت کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 فیصلوں میں توہین عدالت کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان کا جواب پڑھا ہے۔ طلال چوہدری اور دانیال عزیز کے خلاف کریمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی بلکہ ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا۔ جس پر عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ وہ یہ معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کریمنل توہین حساس معاملہ ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ میرا مقصد تھا کہ توہین عدالت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق بہت بڑا جرم کیا گیا لیکن احساس نہیں ہے۔ ہجومی مقامات پر کسی کی بھی عزت اچھال دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بتائیں کہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتوں میں؟ جسٹس بابرستار کے مطابق سیاسی لیڈر عوام میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی بھی کیسے دے سکتا ہے؟ فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں، فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ وہ کوئی قابل گرفت بات نہیں کریں گے۔ لفظ شرم ناک عمران خان کی طرف سے استعمال کیا گیا۔ سماعت کے دوران عدالتی معاونین منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی کی مخالفت کی۔ عدالت عالیہ نے توہین عدالت کی کارروائی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جو کچھ دیر بعدسنایا گیا ۔مختصر فیصلے میں ریمارکس دیے کہ اس کیس کی سماعت 2 ہفتوں تک کے لیے ملتوی کی جاتی ہے جبکہ 22 ستمبر کو عمران خان پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔
Discussion about this post