قصہ صرف یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ایک تصویر خاصی وائرل ہوئی ۔ جس میں سمر قند میں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے دوران وزیراعظم کو عالمی رہنماؤں نے گھیرا ہوا ہے۔ ان میں طیب اردگان اور روسی صدر پیوٹن نمایاں ہیں جو دیگر کے ساتھ انتہائی غور سے وزیراعظم شہباز شریف کو دیکھ رہے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ شہباز شریف کوئی بات کہہ رہے ہیں اور یہ سارے عالمی لیڈران ان کی بات کو توجہ کے ساتھ سن رہے ہیں۔ نون لیگی حامیوں نے اس لمحے کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کردیا، جس میں کیپشن یہ دی کہ” 4 سال بعد کوئی پاکستانی لیڈر ایسا آیا جس کو دنیا عزت و تکریم کے ساتھ دیکھ اور سن رہی ہے ۔”
یہی نہیں روسی صدر پیوٹن کے ساتھ ساتھ طیب اردگان کی تصاویر بھی وائرل ہوئیں۔ جن میں وزیراعظم شہباز شریف انتہائی خوشگوار موڈ میں ہیں جبکہ ایک تصویر میں طیب اردگان مضبوطی کے ساتھ شہبازشریف کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں تو دوسری میں پیوٹن اور شہباز شریف کانفرنس کے دوران جھک کر ایک دوسرے کی بات توجہ سے سن رہے ہیں۔
بہرحال حکومتی حامیوں نے ان تصاویر کو بڑی شان و شوکت اور خوبصورت الفاظوں کے ساتھ شیئر کیا ۔ زور یہی دیا گیا کہ شہباز شریف کو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں غیر معمولی پذیرائی ملی ہے۔ ادھر بھلا حکومتی مخالفین کیسے خاموش رہتے، جنہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کے ہینڈ فری لگانے کے تاخیری عمل کو مذاق کا نشانہ بنایا۔ کسی نے وزیراعظم کے وفود میں شامل وزرا کی تیاری کے بغیر شرکت پر اعتراض اٹھایا ۔ بہرحال گھوم پھر کر مرکز نگاہ وزیراعظم شہباز شریف کی وہی تصویر رہی جس میں وہ عالمی لیڈران میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس تصویر کو ٹیگ کرتے ہوئے حکومتی حامی ، مخالفین پر طنز کے نشتر برساتے رہے۔ جس پر اُنہیں بھی جلال آگیا جنہوں نے تصویرکا پوسٹ مارٹم کرنا شروع کردیا ۔ کوئی ان لمحات کی ویڈیو نکال لایا اور دعویٰ کیا گیا کہ دراصل یہ چند سکینڈ کا ایک لمحہ تھا جب وزیراعظم کو کھانے پر مدعو کیا جارہا تھا اور سب انہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے یہ کیمرے کی آنکھ میں قید ہوگیا اور ایسا لگا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی کوئی بات بغور سنی جارہی ہے۔ مختلف صارفین نے ویڈیو نکال کر مختلف اینگلز سے اس کا واقعی پوسٹ مارٹم ہی کرنا شروع کردیا۔ اس تمام شور اور تنقید و طنز کے طوفان میں کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ روسی صدر پیوٹن نے پاکستان کو گیس کی فراہمی کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور پیوٹن نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غذائی تحفظ، تجارت و سرمایہ کاری، توانائی ،دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کیلئے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہی نہیں وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کرتے ہوئےتجارت، توانائی، ثقافت، اقتصادی اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے جبکہ اقتصادی اور توانائی کے شعبہ میں تعاون کو فروغ دینے ، بارٹر ٹریڈ کو فعال کرنے ، سرحدوں پر معاون مارکیٹیں کھولنے اور پاکستانی زائرین کی سہولت کیلئے قریبی دوطرفہ روابط کی ضرورت پر زور دیا۔ کچھ ایسا ہی دیگر سربراہان مملکت اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقاتوں میں معاملات طے ہورہے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ ان تمام اقدامات کا فائدہ کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ہوگا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر صارفین تصویر کو لے کر بیٹھے ہیں اور اس کے حلیے بخیے کرنے میں لگے ہیں جبکہ حکومتی حامی اٹھنے والے اعتراضات کے جواب دے کر اپنی توانائی ضائع کررہے ہیں۔ تنقید کرنے والے بھی تھک ہار کر نہیں بیٹھ رہے۔اس ساری صورتحال میں ایک صارف ایم عاصم خان نے بہترین تبصرہ کیا ہے کہ اگر نفرت، تنگ نظری اور تعصب کی کوئی مجسم صورت ہوتی تو وہ شاید ہم پاکستانی ہوتے۔ پاکستانیوں نے اب تک کی ساری عمر بس ایک دوسرے کو چھوٹا دکھانے میں گزار دی، دنیا میں بےتوقیری ہمارامقدر بن گئی۔۔
Discussion about this post