ٹخنے تک بہتے خون کو دیکھ کر کنول نے پریشان ہو کر وجہ دریافت کی تو بلوچستان کے علاقے بیلہ کی سیلاب متاثرہ خواتین شرم و جھجک کا شکار ہوگئیں۔ کئی نے چادر سے منہ چھپا لیا جبکہ کچھ زیر لب مسکرانے لگیں لیکن کنول انیس کو یہ تھا کہ اگرخاتون کسی بیماری کا شکار ہے تو اس کا علاج ضروری ہے۔ وہ اس وقت سیلاب متاثرہ خواتین کے لیے ناشتے کا بندوبست کررہی تھیں۔ کراچی سے خاص طور پر شوہر انیس الدین کے ساتھ بلوچستان کا رخ کیا تھا۔ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی کنول انیس نے بہتے خون کے بارے میں معلوم کیا تو انتہائی شرماتے ہوئے جواب ملا کہ اس خاتون کا ” مہینہ ” چل رہا ہے۔ کنول نے خواتین سے سینیٹری پیڈز کے بارے میں معلوم کیا تو کئی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگیں۔ یہاں تک کہ سماجی کارکن کو یہ بتایا گیا کہ وہ ” خاص دنوں ” میں سینیٹری پیڈز اورکپڑے کے بغیر ہی رہتی ہیں۔ کنول کے پاس جو سینیٹری پیڈز اور دیگر ضروری سامان تھا، وہ انہوں نے ان خواتین کو دیا۔
واپسی پر شوہر کے ساتھ اس موضوع پر اظہار خیال کیا، جس میں یہی طے ہوا کہ ان خواتین کو اس سلسلے میں آگاہی دی جائے۔ پھر اس جوڑے نے سیلاب زدگان خواتین کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت 300 سینٹیری پیکس بنائے، ان میں پیڈز، زیر جامہ، اینٹی بیکٹریا صابن اور درد کش دوا شامل تھیں۔ اب یہ جوڑا بلوچستان ہی نہیں سندھ کے علاقوں کیٹی بندر، مکلی،سجاول، بدین، سیہون، دادو، فریدہ آباد سمیت کئی علاقوں کا رخ کرتا ہے۔ جہاں کی سیلاب زدگان خواتین کو سینیٹری پیکس تقسیم کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے۔
کراچی کے اس جوڑے نے ” ایام حیض مہم” کے تحت یہ فلاحی کام شروع کررکھا ہے، جس کے ذریعے اب تک ساڑھے 15 ہزار سے زائد سینیٹری پیکس تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ قابل دید عمل تو یہ ہے کہ خواتین کو ان کے استعمال کے علاوہ انہیں کس طرح مناسب جگہ پر ٹھکانے لگانا ہے اس کی بھی آگاہی دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کنول کہتی ہیں کہ پیڈز کے استعمال کے بعد عموماً خواتین انہیں کہیں بھی ڈال دیتی تھیں، جو کسی نہ کسی طرح اڑ کر کھڑے سیلابی پانی میں شامل ہوجاتے، یہ عمل صفائی اور صحت کے حوالے سے خاصا خطرناک تھا۔
عام خیال یہی تھا کہ اس طرح وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں اور مختلف بیماریوں سے دوسرے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر کوشش کی کہ ان خواتین کو یہ شعور دیا جائے کہ وہ سینیٹری پیڈز کو استعمال کرنے کے بعد کس طرح ضائع کریں۔ کنول کے مطابق ابتدا میں اس ” ایام حیض مہم ” کو اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا لیکن پھر دوست احباب نے معاونت کی اور ان کے تعاون سے یہ مہم کامیابی سے جاری ہے۔ کنول انیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں کا رخ کریں تو ان کی اس مہم کا یہ فائدہ ہوا ہے کہ اب خواتین از خود سینیٹری پیڈز طلب کرنے کے لیے آتی ہیں۔ اپنے مسائل بیان کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے مرد بھی تعاون کرتے ہیں۔
ارادہ تو یہ ہے کہ ایک سینٹر ہو جہاں ہر ماہ ان خواتین کو مفت سینیٹری پیکس فراہم کیے جائیں کیونکہ خواتین کے لیے یہ مسئلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کنول کو اس بات کا شکوہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس سلسلے میں قابل قدر کارکردگی نہیں دکھائی جارہی۔ متاثرہ خواتین حکومتی رویے سے نالاں ہیں۔
Discussion about this post