اسلام آباد کی مقامی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر اسلام آباد پولیس نے سارہ کے سسر اور صحافی ایاز امیر کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ایاز امیر کے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد مزید تفتیش کی ضرورت ہے کی کیونکہ مرکزی ملزم شاہ نواز کا ایاز امیر سے رابطہ ہوا تھا۔ جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس مزید کیا ثبوت ہیں؟ پراسیکیوٹر کے مطابق سارہ انعام کے قتل کے بعد شاہنواز کی ایاز امیر سے بات ہوئی اور مقتولہ کے والدین کے پاس کچھ اور ثبوت بھی ہیں۔ ایاز امیر کے وکیل نے جس پر جواب دیا کہ اسلام آباد پولیس بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے۔ ایاز امیر کا بیٹے سے رابطہ قتل کے بعد ہوا۔ پراسیکیوٹربتائیں کیا اس طرح دفعہ 109 لگتی ہے؟ مقتولہ کے والدین کا ایازامیر کے خلاف کوئی بیان سامنےنہیں آیا۔ حیرت ہے کہ اسلام آباد پولیس گرفتار کرنے کے بعد ثبوت جمع کر رہی ہے۔ جب مزید ثبوت آجائیں پھر وارنٹ لے کر گرفتاری کرلی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موکل ایاز امیر کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ واقعے کے وقت ایاز امیر چکوال میں تھےاور انہوں نے ہی واقعے کی اطلاع پولیس کو دی۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی ان کے موکل کا 35 سال سے جائے وقوعہ والے فارم ہاؤس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی لیے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔ جس پر عدالت نے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ جمعے کو اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں سینئر صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہ نواز نے شریک سفر سارہ کو ڈمبل کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔ شاہ نواز کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ اور والد ایاز امیر کو مقتولہ سارہ کے چچا اور چچی نے بطور ملزم نامزد کیا تھا، جس کے بعد ایاز امیر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
Discussion about this post