ایک ایسا پہلوان جس نے دلوں پر راج کیا۔ محمد حسین (انتورنیو) انوکی جن کے پرستار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ پاکستان سے تو انہیں خاص محبت تھی اور کئی بار پاکستانیوں کے مہمان بن کر دل جیت چکے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے یہ خبر کسی بڑے صدمے سے کم نہیں تھی کہ ان کے ہر دلعزیز جاپانی پہلوان 79 برس کی عمر میں چل بسے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تو ان کی وفات پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی 10 سال پرانی تصویر بھی شیئر کی ۔ محمد حسین انوکی کے دل کی دھڑکن جاپانی شہر ٹوکیو میں بند ہوئی۔ 60 کی دہائی میں پہلوانی کی دنیا کے وہ بے تاج بادشاہ تھے۔ جن کے سامنے بڑے بڑے پہلوان پانی بھرتے ہوئے نظر آتے۔
پاکستان کے جب بھی مہمان بنے تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے تماشائی میدانوں کا رخ کرتے۔ دسمبر 1976 میں اُن کا پہلی بار مقابلہ اکرم پہلوان سے ہوا۔ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں یہ دنگل انوکی کے نام رہا۔ ت3 سال بعد وہ پھر پاکستان آئے تو اب ان کے مقابل اکرم پہلوان کے بھتیجے جھارا پہلوان تھے جنہوں نے حیران کن طور پر لاہور کے معرکے میں انوکی کو دھول چٹا دی۔ پاکستانی پہلوانوں سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے جھارا پہلوان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے کو جاپان میں اپنی نگرانی میں تربیت دی تھی۔ یہی نہیں وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے فروغ کے لیے واہگہ بارڈر پر امن واک کرنا چاہتے تھے۔
دسمبر 2012 میں اُنھوں نے پھر پاکستان کا دورہ کیا جس میں وہ اپنے ساتھ کئی جاپانی پہلوانوں کو لے کر آئے جنھوں نے لاہور اور پشاور میں ریسلنگ مقابلوں میں حصہ لیا۔ انوکی نے عراقی دورے پر اسلام قبول کیا جبھی ان کے نام کے ساتھ محمد حسین کا اضافہ کیا گیا۔ وہ 1976 میں باکسنگ لیجنڈ محمد علی کے ساتھ مکسڈ مارشل آرٹس مقابلے میں ٹاکرا کرچکے ہیں۔
انوکی جاپانی پارلیمان کے رکن بھی منتخب ہوئے اور 90 کی دہائی میں خلیجی جنگ کے دوران عراق گئے اور صدام حسین سے جاپانی یرغمالیوں کو رہا کرانے میں ان کا مثالی کردار رہا۔
Discussion about this post