حالیہ مون سون بارشوں نے ملک بھر میں تباہی مچائی وہیں” ہنہ جھیل ” کے لیے یہ بارشیں اس کی رونق بحال کرنے کا باعث بن گئیں۔ کوئٹہ سے17 کلومیٹر دور ” ہنہ جھیل ” جسے 1894 میں انگریز دور میں پہاڑوں کے درمیان بنایا گیا جس کا مقصد نا صرف عوام کو ایک تفریحی مقام فراہم کرنا تھا بلکہ پہاڑوں پر ہونے والی برف باری اور بارش کے پانی کو جمع کرنا بھی تھا لیکن پھر موسم کی تبدیلی جہاں ماحولیات پر اثر انداز ہوئی ہے وہیں اس کے حسن کو بھی ماند کر دیا تھا.
کئی برسوں سے بارشیں تو ہوئیں لیکن یہاں کے بسنے والوں نے بھی پانی کے راستوں کو روک کر اپنے باغات بنائے ہیں یا گھر اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ جھیل خشک ہوتی چلی گئی۔ ماضی میں اس جھیل میں ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں موجود تھیں اور یہاں پر کشتی رانی کے مقابلے بھی منعقد کیے جاتے تھے مگر بارشوں اور برف باری نہ ہونے سے اس کی رونقیں ختم ہوگئیں۔ ” ہنہ جھیل ” 818 ایکڑ پر مشتمل ہونے کے ساتھ ساتھ 49 فٹ گہری اور اس میں 220 ملین گیلن پانی جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے. اس جھیل کے اردگرد مختلف قسم کے گھنے درخت ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔
بہرحال حالیہ مون سون بارشوں سے اس میں اب تک صرف اور صرف 24 فٹ پانی ہی جمع ہو سکا ہے باقی پانی اس ” ہنہ جھیل ” میں آنے کی بجائے اردگرد آباد آبادیوں کو بہہ لے گیا ۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ لوگوں نے پانی کے راستوں پر گھر اور ساختہ پل بنا رکھے تھے اس لیے جھیل میں صرف 24 فٹ پانی جمع ہو سکا۔ کوئٹہ کے عوام ” ہنہ جھیل ” کے بھر جانے پر بے حد خوش ہیں۔ آج کل اس جھیل پر کشی رانی بھی ہوتی ہے. مقامی لوگ ” ہنہ جھیل ” کے بھر جانے سے خوش ہیں کیونکہ یہاں کی رونقیں بحال ہونے سے ان کے روزگار میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ یہ بھی دلچسپی سے کم نہیں کہ کسی زمانے میں اس جھیل کو ” خونی جھیل ” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے. کہا جاتا ہے جب اس میں پانی تھا تب آئے روز جھیل میں کوئی نہ کوئی زندگی ڈوب کر ختم ہو جاتی تھی. 6 جولائی 1990 میں 40 لوگ اس جھیل میں ڈوب گئے.
Discussion about this post