تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی کی شق 62 ون ایف کالا قانون ہے۔ فیصل واوڈا کے مقدمے کو محتاط ہو کر تفصیلی طور پر سنیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو غلط بیان حلفی پر تحقیقات کا حق ہے۔اگرعدالت عظمیٰ تاحیات نااہلی کے حکم کو کالعدم قرار بھی دے تو حقائق تو وہی رہیں گے۔ اس موقع پر فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے 4 سال پہلے الیکشن لڑا اور 2 سال بعد ان کے غلط بیان حلفی پر نااہلی کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر کی گئی۔
وکیل فاروق ایچ نائیک کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں واضح ہے کہ فیصل واوڈا نے دہری شہریت تسلیم کی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں سوال بس یہ ہے کہ الیکشن کمیشن تاحیات نااہلی کا حکم دے سکتا ہے یا نہیں۔ اب اس مقدمے کی سماعت 6 اکتوبر کو ہوگی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی کا قانون درست نہیں۔ جو بھی نئی اسمبلی آئے، اسے قانون میں ترمیم کرنی چاہیے۔ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیار اور مقدمات مقرر کرنے سے متعلق بھی اصلاحات ضروری ہیں۔
Discussion about this post