آزاد کشمیر کی لگ بھگ 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد خواتین ووٹ کے حق سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی سیاست میں بھی خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے برابرہے۔ یہاں تک کہ کونسلر شپ کے لیے بھی خواتین کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی کی 2021 کی مردم شماری کی بنیاد پر آزاد کشمیر میں خواتین کی آبادی 51 فی صد ہے لیکن رجسٹرڈ خواتین ووٹرز صرف 46 فی صد ہیں اسی طرح مرد آبادی کا 49 فی صد ہیں اور ان میں سے 83 فی صدمردوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ یہ امر باعث تشویش ہے کہ حالیہ انتخابات میں خواتین کا ووٹ رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے 3 لاکھ سے زائد خواتین ووٹ کا حق استعمال نہ کرسکیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی خاتون ریاستی رکن اسمبلی نصرت شہناز درانی کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 53کے ایوان میں صرف پانچ خواتین کا نامزد نشستوں پر ہونا محض علامتی ہے۔ یہ 5 خواتین بھلا کیسے آزاد کمشیر کی خواتین کی مکمل نمائندگی کر رہی ہیں؟
صورتحال یہ ہے کہ براہ راست انتخابات کے زریعے کوئی خاتون اسمبلی پہنچ بھی جائے تو ان کو کسی قسم کی قانون سازی اور فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ہوتا۔ نصرت شہناز نے ایک انتہائی توجہ طلب پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ جو خواتین سیاست میں قدم رکھتی ہیں، ان خواتین کی کردار کشی مرد اپنا حق سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کی حوصلہ شکنی ہوتی اور کچھ خواتین اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے سیاست میں آنا پسند نہیں کرتیں۔ 2021کے عام انتخابات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے 12 خواتین نے براہ راست ٹکٹ کے لیے درخواست دی مگر صرف 2 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے گے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف آزاد کشمیر کی رہنما عروج فاطمہ نے خواتین کی کم نمائندگی کا سارا ملبہ نون لیگ کی گذشتہ حکومت پر ڈال دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ نون لیگ حکومت میں بلدیاتی الیکشن میں خواتین اور نوجوانوں کو ملا کر 25 فی صد نمائندگی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد پی پی ٹی آئی آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت بھی خواتین کے لیے کوئی خاطرخواہ اقدمات نہیں اٹھا سکی۔
اس تمام تر صورتحال میں آزاد کشمیر کی خواتین درحقیقت یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ریاستی سیاست میں ان کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے ۔ یاد رہے کہ 21 دسمبر 2021 کو 30 سال بعد سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے موجودہ حکومت کو6 ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ مگر حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ابھی تک ترمیم نہیں کی جاسکی ۔ اس ایکٹ میں ترمیم کے بعد ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی خواتین کی شمولیت کی صورتحال کیا ہوگی۔ رکن الیکشن کمیشن فرحت علی میر کا کہنا ہے کہ بروقت الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے جس کے لیے الیکشن کیمشن کی جانب سے تمام تر تیاریاں مکمل ہیں آئین میں ترمیم حکومت کی ذمہ داری ہے ہماری ذمہ داری سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے حکم کے مطابق ہے بر وقت بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہے۔
Discussion about this post