ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت پر بے ترتیب پڑی ہوئی بچی کچھی لاشوں کو دیکھ کر ہی خوف طاری ہوجاا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں تو پنجاب حکومت بھی نیند سے جاگی۔ وزیراعلیٰ نے واقعے کا نوٹس لیا جبکہ محکمہ صحت نے اس سارے معاملے پر 6 رکنی تحقیقاتی ٹیم بنادی ہے۔ نشتر اسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ کو معاملے کی چھان بین کے لیے 3دن کا وقت دیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں کئی ہولناک باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔اسپتال حکام کا دعویٰ ہے کہ نامعلوم افراد کی لاشیں ہیں۔ یعنی وہ افراد جو کسی حادثے یا کسی اور سانحے کا شکار ہو کر دم توڑ گئے۔ ایسے نامعلوم افراد جن کے ورثا نہیں تھے لیکن انہیں مردہ خانے میں رکھنے کے بجائے چھت پر پھینک کر چیل کوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اسپتال حکام کے مطابق یہ لاشیں ملتان کی پولیس نے میڈیکل کے طالب علموں کو تعلیمی نقطہ نظر کے تحت دی تھیں۔
بشکریہ فیس بک نشتر اسپتال
طالب علم ان لاشوں پر مختلف تجربات کرتے اور لیکن بے حسی اور سنگ دلی کا یہ عالم تھا کہ اپنا کام پورا ہونے کے بعد ان لاشوں کو ایسے ہی چھتوں پر پھینک دیا جاتا۔ ان گلی سڑھی لاشوں کی تدفین کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ اُدھر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے اناٹومی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کے مطابق یہ لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں جو پولیس نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے حوالے اس مقصد سے کی تھیں کہ ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ پولیس نے تو یہاں تک کہ کہا کہ ایم بی بی ایس طالب علموں کو اپنے تجربات کے لیے ان لاشوں کی ضرورت ہو تو وہ انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ بہرحال لاشیں گل سڑ چکی تھیں۔ ان کی حالت ایسی بھی نہیں تھی کہ طالب علم اپنے تجربات میں انہیں استعمال کرتے۔ عوام کا تو یہی کہنا ہے کہ مقصد چاہے کچھ بھی ہو لیکن اس طرح لاشوں کی بے حرمتی تو نہ کی جائے ۔ اگراستعمال میں نہیں آئیں تو کیا یہ فرض اسپتال انتظامیہ کا نہیں تھا کہ وہ ان کی تدفین کرتی۔ ایسے ہی کھلے آسمان تلے رکھ کر ایک مکروہ اور گھناؤنا عمل کیا گیا ہے ۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر کسی بھی ٹیچنگ اسپتال میں 2 نوعیت کے مردہ خانے ہوتے ہیں۔ ایک اناٹومی ڈپارٹمنٹ کا تو دوسرا فارنزک کا، جہاں مختلف نوعیت کےپوسٹ مارٹم کا عمل کیا جاتا ہے۔ پولیس ورثا والی بھی لاش لاتی ہے اور لاوراث بھی ۔ لاوراث لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا مقصد جہاں موت کی وجہ دریافت کرنا ہوتا ہے وہیں شناخت بھی ۔ ایسی لاشوں کو بطور امانت اسپتال کے مردہ خانوں میں رکھ دیا جاتا ہے عموماً 15 دن تک ایسی نامعلوم لاشوں کے ورثا کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ ایسی ناقابل شناخت لاشوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیمیائی طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے اور اسٹوریج میں رکھا جاتا ہے۔
جس ے بعد اسے اناٹومی ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جو میڈیکل طالب علموں کے استعمال میں اسے لاتے ہیں جب تجربات مکمل ہوجاتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ان لاشوں کی تدفین ہوگی اور پھر اگر ان کی ہڈیوں پر تجربات کرنے ہوں پھر تدفین شدہ لاشوں تک رسائی پھر سے کی جاتی ہے۔ مگر ملتان کے نشتر اسپتال میں جو کچھ ہوا وہ لمحہ فکریہ ہے ۔ اگر مقصد ان لاشوں کی ہڈیاں ہی حاصل کرنا تھا تو پھر طے شدہ طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا گیا ؟ اسپتال انتظامیہ نے اس قدر بے حسی ، لاپرواہی اور سنگدلی کیوں دکھائی ؟ پھر سوال یہ بھی ہے کہ لاوارت اور نامعلوم افراد کی لاشوں کے ساتھ یہ بے حرمتی صرف نشتر اسپتال میں ہی ہورہی ہے یا پنجاب سمیت ملک بھر کے میڈیکل تعلیمی اداروں میں یہ عمل کیا جارہا ہے ؟
Discussion about this post