ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخارنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کے معاملے میں حقائق کا ادراک بہت ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ارشد شریف پاکستانی صحافت کے آئی کون تھے۔ جن کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی۔ وہ انتہائی محنتی انسان تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اداروں اور ان کی لیڈر شپ یہاں تک کہ چیف آف آرمی اسٹاف تک پر الزام تراشی کی گئی۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں اضطراب اور تقسیم کی کوشش کی گئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 27 مارچ کو جلسے میں ایک کاغذ لہرایا گیا، ایسا بیانیہ بنایا گیا جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ آرمی چیف نے 11 مارچ کو سائفرسےمتعلق وزیراعظم سےذکرکیاتھا، سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا کوئی بڑی بات نہیں۔ آئی ایس آئی نے پروفیشنل انداز میں باخبر کردیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، آئی ایس آئی کی فائندنگز میں کسی سازش کا شبہ نہیں ملا۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے مطابق10 اگست کو پشاور ایئرپورٹ سے ارشد شریف دبئی کے لیے روانہ ہوئے، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو ایئرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا کیا، 5 اگست کو ارشد شریف سے متعلق کے پی حکومت کی طرف سے تھریٹ الرٹ جاری ہوا، اس تھریٹ الرٹ سے سیکیورٹی اداروں سےکوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔
سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر روانہ کردیا جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سلمان اقبال کو پاکستان واپس لا کر شامل تفتیش کرنا چاہیے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے، اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے مطابق پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، ذہن سازی سے قوم میں افواج پاکستان کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، نیوٹرل اور جانور جیسے الفاظ سے بات چیت کی گئی۔ لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا ہے، شہدا کا مذاق بنایا گیا، اس کے باوجود آرمی چیف نے انتہائی صبر اور تحمل سے کام لیا، غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیے گئے، سیاست سے باہر نکلنے کا فیصلہ آرمی چیف سمیت پورے ادارے کا تھا، پچھلے سال اور مارچ سے بہت دباؤ ڈالا گیا، پاکستانی اداروں کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو آئین کے خلاف تھی۔
Discussion about this post