جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نےسپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کو حکم دیا جائے کہ وہ تحریک انصاف کی لانگ مارچ کو روکیں۔ ان کے مطابق لانگ مارچ سے عوامی بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔سینیٹر کامران کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی دھرنا یا ریلی کو غیر معینہ مدت تک نہ لے جایا جائے اس کے لیے وفاق اور صوبوں کو پابند کیا جائے۔ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی وجوہ نہیں جن کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کو روکنے کا حکم دیں۔ 3 رکنی بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی پیش ہوئے۔ درخواست گزار کامران مرتضیٰ کہتے تھے کہ پی ٹی آئی پھر لانگ مارچ اسلام آباد لا رہی ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کو جہاد کا نام دے کر کارکنوں سے حلف لے رہے ہیں۔ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے اداروں سے متصادم ہونا چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس اطہر من کا کہنا تھا کہ غیرمعمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ انتظامیہ کے پاس اس نوعیت کی صورتحال قابو کرنے کے اختیارات ہیں۔
درخواست گزار نے درخواست میں ماضی میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہےجس کا سیاسی حل ہوسکتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے مطابق احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان کا موقف تھا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہی عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ سپریم کورٹ نے لانگ مارچ کے خلاف سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر موثر قرار دے نمٹا دی۔
Discussion about this post