ٹی وی کے تجربہ کار اور سینئر فنکار بہروز سبزواری موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والی خواتین کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ یہ سوال ان دنوں ہر ایک محفل میں موضوع بحث ہوتا ہے اور پھر توجہ دلائی جاتی ہے بہروز سبزواری کے تازہ انٹرویو کے ایک چھوٹے سے کلپ پر، پرانک اسٹار نادرعلی کے ساتھ انٹرویو کے ایک حصے میں بہروز سبزواری کا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈراموں میں بے حیائی اور آزادخیالی بہت ہوتی جارہی ہے، وہیں اس گفتگو کا موضوع موڑتے ہوئے بہروز سبزواری موٹر سائیکل پر سفر کرنے والی خواتین کی جانب اپنی توپوں کا رخ کرگئے۔ بہروز سبزواری نے دعویٰ کیا کہ موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھی خواتین کا لباس مناسب نہیں ہوتا۔ ان کے کپڑوں سے جسم جھلک رہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بہروز سبزواری کا کہنا تو یہ بھی تھا کہ ان موٹر سائیکلوں پر سوار کچھ خواتین ٹائٹ ملبوسات پہنتی ہیں جو اچھی بات نہیں۔ اس سے ان کے گھر کی ” ٹریننگ ” کا علم ہوتا ہے۔
اسکرین گریپ
پھر اگلے ہی لمحے بہروز سبزواری نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پاکستانی مرد حضرات کے اندر ریڈار لگے ہوتے ہیں جو برقعے میں موجود خواتین کو بھی گھورنے سے باز نہیں آتے۔ بہروز سبزواری کے ان خیالات کو خواتین انتہائی نامناسب قرار دے رہی ہیں ۔ خواتین کے مطابق بہروز سبزواری ذرا یہ تو بتادیں کہ خواتین کو گھورنے کی ” ٹریننگ” مردوں کو کس گھر میں دی جارہی ہے؟
آخر موٹر سائیکل کا انتخاب ہی کیوں؟
ایک سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ خواتین کسی پبلک ٹرانسپورٹ کا چناؤ کرنے کے بجائے موٹر سائیکل پر ہی کیوں سفر کرتی ہیں؟ تو اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ کراچی میں حکومتی اعداد و شمار کیا کہتے ہیں۔ اس بارے میں معلوم یہی ہوا ہے کہ کراچی میں موجود حکومتی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام صرف 42 فی صد آبادی استعمال کرتی ہے ۔
رکشہ اور ٹیکسی کا استعمال 8 فی صد جبکہ 21 فی صد شہری نجی ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ 42 فی صد پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنے والے شہری ان میں خواتین ہوں یا طالبات ان کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولیات ناکافی ہیں بلکہ کراچی میں مردوں کے لیے بھی اس معاملے میں صرف دعوے ہی ہوچکے ہیں۔ اب ملازمت پیشہ یا طالبات یا پھر وہ خواتین جو ذاتی کام سے گھروں سے نکلتی ہیں، ان کے لیے سب سے آئیڈل سواری موٹر سائیکل ہی تصور کی جاتی ہے جو کم خرچ ہوتی ہے۔
بشکریہ سوشل میڈیا
پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کی مشکلات
بیشتر خواتین کو اس بات کا شکوہ رہتا ہے کہ بسوں کی کم تعداد کی بنا پر وہ کسی نہ کسی اسٹاپ پر انتظار کی سولی پر لٹکی رہتی ہیں۔ ان پبلک ٹرانسپورٹ میں جنسی ہراسانی کے واقعات بھی عام ہیں۔ عالم یہ ہے کہ آن لائن ٹیکسی جیسی سہولیات میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ کہنے کو بسوں، کوچز اور منی بسوں میں ” لیڈیز پوشن ” ہوتا ہے لیکن یہاں بھی مردوں کا قبضہ رہتا ہے۔ جن کے درمیان خواتین یا طالبات ڈری سہمی منزل کے آنے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کراچی میں فی الحال اس پہلو پر کسی نے نہیں سوچا کہ کوئی ایسی بھی بس ہو جو مکمل طور پر صرف اور صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں۔ ماضی میں ” پنک ٹیکسی” کا تجربہ کیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر اسے بند کردیا گیا۔ سندھ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے گرین لائن بس کے ذریعے ٹرانسپورٹ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے جس میں خواتین کے لیے مخصوص گوشہ ہے لیکن کم تعداد اور پھر مخصوص مسافت کی بنا پر خواتین کے لیے یہ سہولت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شہر بھر میں پھیلے ہوئے چنگ چی رکشہ بھی خواتین کی ٹرانسپورٹ کی دشواری کو پورا کرنے میں ناکافی ثابت ہورہے ہیں ۔
بہروز سبزواری کی سوچ ایسی کیوں؟
کراچی میں خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہے۔ اُس پر بہروز سبزواری یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ سواری سے پہلے خواتین لباس کا انتخاب درست رکھیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ مرد حضرات کو کیوں یہ مشورہ نہیں دے رہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھیں؟ آخر ان کی نگاہ سٹرک کے بجائے موٹرسائیکل پر بیٹھی خواتین کے لباس پر کیوں ہے ؟ اس سلسلے میں انسانی حقوق کی سرگرم رہنما ایمان مزاری بذریعہ ٹوئٹ کہتی ہیں کہ بہروز سبزواری نے یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کی کہ بائیک پر سوار خواتین کو گھورنے والا بدکردار ہے۔ اپنی نظریں نیچی کریں اور خواتین کو یہ بتانا بند
بہروز سبزواری نے یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کی کہ وہ بائک پر سوار خواتین کو گھورنے والا بدکردار ہے۔ اپنی نظریں نیچی کریں اور خواتین کو یہ بتانا بند کریں کہ انہیں کس طرح کا لباس پہننا چاہیے۔
اگر یہ لباس آپ کے جذبات بھڑکا رہا ہے، تو گھر پر رہیں کیونکہ آپ ایک predator ہیں۔ https://t.co/21z5lQpUpS
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) December 15, 2022
کریں کہ انہیں کس طرح کا لباس پہننا چاہیے۔ اگر یہ لباس آپ کے جذبات بھڑکا رہا تو آپ گھات لگا کر شکار کرنے والے انسان ہیں۔ بہروز سبزواری کے انہی فرسودہ اور تنگ نظری سے بھرے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی رہنما نگہت داد کے مطابق اگر نچلے طبقے کی خواتین کو اور زیادہ آزادی مل جائے تو بہروز سبزواری جیسی ذہینت کے عکاس افراد کیا کریں گے ؟
God forbid if Pakistani women from lower class get more freedom to movement through access to their affordable transport like bikes, what people like Behroz would do? Thanks to @SalmanSufi7 who broke the taboo on a scale while introducing #womenOnWheels years ago & normalized it pic.twitter.com/Jlv5UioiBZ
— Nighat Dad (@nighatdad) December 14, 2022
خوشی کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم کے اسٹیجک ریفرم کے ہیڈ سلمان صوفی نے ویمن آن وہیل جیسی سہولت متعارف کرائی ہے جس کے ذریعے خواتین خود موٹر سائیکل چلانے کے قابل ہورہی ہیں۔
موٹر سائیکل پر بیٹھنے پر اتنا ہنگامہ تو چلانےپر نہیں ہوگا؟
بیشتر خواتین کے مطابق جب بہروز سبزواری جیسی ذہینت کے افراد موٹر سائیکل پر بیٹھنے پر اس قدر واویلا مچار ہے ہیں اگر شہر بھر میں بڑی تعداد میں موٹر سائیکل چلاتی خواتین یا لڑکیاں نظر آنے لگیں تو ان کا ردعمل ناقابل برداشت ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کراچی ہوں یا پھر کوئی اور شہر اس وقت بڑی تعداد میں خواتین خود موٹرسائیکل چلارہی ہیں ۔ کم از کم ایسی خواتین یا بچیاں پبلک ٹرانسپورٹ کی جھنجھٹ سے آزاد ہوچکی ہیں۔
برسوں سے موٹر سائیکل چلانے والے احمد زیدی کہتے ہیں کہ بڑا دلکش اور قابل تحسین منظر وہ لگتا ہے جب کسی سگنل پر آپ کے ساتھ کوئی خاتون موٹر سائیکل سوار آکر کھڑی ہوجائے یا پھر کسی لڑکی کو یہ سواری چلاتے ہوئے آپ دیکھیں۔ ایک اور شہری ارسلان تاج کی رائے کے مطابق یہ اس جانب اشارہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی خواہش مند ہیں ۔ ان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے وہ نہیں گھبراتی بلکہ وہ خود بااختیار اور خود مختار ہونے کی طرف قدم بڑھا چکی ہیں۔
لیکن حیرانی ہوتی ہے جب بہروز سبزواری جیسی مخصوص سوچ کے حامل افراد خواتین کو ہدف تنقید بناتے ہیں جو خواتین کے لباس پر نکتہ چینی کرکے سڑکوں پر گھومتے پھرتے اُن مردوں کے ذہنوں میں یہ وائرس بھر رہے ہیں کہ وہ اب نہ چاہتے ہوئے بھی موٹر سائئیکل پر پیچھے بیٹھی خواتین کے لباس کو چیک کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مردوں کی سوچ بدلنے میں خود مرد پہل کرپائیں گے ؟
Discussion about this post