’میں با ر بار ڈاکٹر سے یہی کہہ رہا تھا کہ میرا بھائی ایتھلیکٹ ہے۔ وہ ایسے جان نہیں دے سکتا۔وہ بہت سخت جان ہے۔بھلا ٹانگ پر گولی لگنے سے اُس کی موت کیسے ہوسکتی ہے۔ میں نے ڈاکٹر کو پیچھے دھکا دیا تو وہ دور پڑی اسٹریچر پر جا گرے۔میں بلال کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دبا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے پھر قمیض اٹھا کر دکھایا کہ اس کے سینے پر گولی لگی ہے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ روتے ہوئے میں زمین پر گر چکا تھا۔‘ نم آنکھوں سے ارسلان ناصر بتارہے تھے۔جن کے سب سے چھوٹے بھائی بلال ناصرکو جمعرات کودوپہر ساڑھے تین بجے یونیورسٹی روڈ پرواقع چائے کے ہوٹل پر راہزنی کی واردات میں مزاحمت کی بنا پر 2گولیاں ما ر کر ڈکیتوں نے زندگی سے محروم کردیا۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
بلال ناصر این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ پیٹرولیم ٹیکنالوجی کے تیسرے سال کا طالب علم تھا۔جمعرات کو یونیورسٹی کی کلاس لینے کے بعد بلال ناصر دوستوں کے ساتھ چائے کے ہوٹل پربیٹھا تھا جہاں یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ ایک دوست کے مطابق بلال ناصرہمیشہ ٹھنڈے مزاج کا نوجوان تھا۔ جو کبھی بھی کسی سے اونچی آواز میں بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ بلال کو نجانے کیسے اور کہاں سے اس قدر غصہ اور جلال آگیاجو ان کے لیے بھی حیران کن تھا اور وہ پھر دیکھتے ہی وہ ڈکیتوں سے دو بدو ہوگیااور اسی بات کا یقین نہیں آتا۔ بلال کے بڑے بھائی ارسلان ناصر کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ اُن کا بھائی تو انتہائی سیدھا سادا اور معصوم تھا۔ جو آندھی آئے طوفان رات 10بجے سونے کے لیے بستر پر چلا جاتا کیونکہ صبح سویرے فجر کے وقت اٹھ کر یونیورسٹی جانے کی تیاری کرتا۔
فٹ بال کا انسائیکوپیڈیا
ارسلان نے روتے ہوئے کہا ’ وہ حالیہ دنوں میں ہونے والے فٹ بال کے میچز کے وقت ہی رات دیر تک جاگتا اور بے چینی سے میچ شروع ہونے کا انتظار کرتاکیونکہ فٹ بال سے اسے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔میرا بھائی پورا کا پورا فٹ بال کا انسائیکلوپیڈیاتھا،یہاں تک وہ نامی گرامی ہی نہیں عام سے فٹ بالر کے بارے میں بھی بھرپو رمعلومات رکھتا۔
بلال پر فائرنگ کی فوٹیج دیکھی ہے۔ اسے دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈکیتوں نے یقینی طور پر بلال کو گالی دی ہوگی۔ کیونکہ یہی وہ عمل ہے جو اسے غصے میں لاسکتا ہے۔اسے گالی برداشت نہیں تھی۔یہ کہنا ہے کہ اس نے موبائل دینے میں مزاحمت کی۔ اس بات کو میں نہیں مانتا کیونکہ ہم اٹھتے بیٹھے اسے یہی کہتے تھے کہ اگر کبھی کوئی تم سے موٹر سائیکل یا موبائل چھینے تو آنکھ بند کرکے دے دینا۔ جس پر وہ یہی کہتا کہ بھائی مجھے اپنی جان عزیز ہے۔‘
جس کی امانت تھی اُس نے لے لی
بلال 4بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ والدین تو غم سے نڈھال ہیں۔ بالخصوص والدہ کا رو رو کر براحال ہے۔ دوسری جانب والد کو جب سے جواں بیٹے کی موت کی خبر ملی ہے تو جیسے ان کے آنسو خشک ہوچکے ہیں۔تعزیت کرنے والوں سے وہ بس یہی کہتے ہیں کہ ’خدا کی امانت تھی، اُس نے دی تھی، اسی نے لے بھی لی لیکن کیا کوئی اتنی سی بات پر جان لے سکتا ہے۔یہ یقین نہیں آرہا۔‘ گھر والوں کو واقعے کی اطلاع بلال کے ایک دوست نے بذریعہ فون دی لیکن اُس نے صرف یہی بتایا کہ ٹانگ پر گولی لگی ہے۔جبھی ارسلان کو بھی لگا کہ معمولی سے زخم ہوں گے بھر جائیں گے۔ اسپتال پہنچنے کے کافی دیر بعد ان پر یہ خبر دھماکہ بن کر پھٹی کہ بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
یونیورسٹی کے لیے انمول ہیرا
این ای ڈی یونیورسٹی میں بلال ناصر کا داخلہ میرٹ پر ہوا تھا۔ بھائی ارسلان ناصر کا کہنا ہے کہ جب چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اُس کا نام این ای ڈی یونیورسٹی کے لیے آگیا تو سب سے زیادہ اس بات کی خوشی ہوئی کہ یہ میرٹ پر تھا۔ کیونکہ یونیورسٹی کی ایک ایک سیٹ لاکھوں روپے میں حاصل کی جاتی ہے لیکن بلال نے اپنی قابلیت، صلاحیت اور ذہانت سے یہ اعزاز حاصل کیا۔ بلال نے صرف یہ ضد کی وہ فیس کی ادائیگی کردیں۔ حالیہ دنوں میں وہ یونیورسٹی کی جانب سے 2بڑے منصوبوں میں مصروف تھا۔ ایک تو یہ تھا کہ پاکستان میں سوئی گیس کے ذخائر کا مستقبل کے لیے تخمینہ لگانا جس کے لیے اس نے اندرون سندھ تک کا سفر کیا جبکہ نواب شاہ میں تیل کے نمونوں کا یہ تجزیہ کرکے یہ بھی معلوم کررہا تھا کہ یہ کس قدر خالص ہے کہیں یہ ایرانی تیل کی طرح تو نہیں۔
یونیورسٹی کے نزدیک بلال ناصر ان کے لیے قیمتی اثاثہ تھا۔ ارسلان ناصر کا مزید کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے دباؤ کی وجہ سے ہی پولیس اس قدر فعال ہوئی اور دعویٰ کیا کہ ملزمان میں سے ایک کو پکڑ لیا ہے۔
بلال کا فون نہیں چھینا تھا
ارسلان کا کہنا ہے کہ ’یاردوست ہوٹل پر تھے تب ڈکیتوں نے بلال کے ایک دوست کا موبائل چھینا۔ڈکیت نے جب موبائل ہاتھ میں لیا تو اسی وقت بلال نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس عرصے میں دونوں کے درمیان دھینگا مشتی ہوئی۔بلا ل نے ایک ڈکیت کو قابو کرلیا تھا۔ جبھی اس کے دوسرے ساتھی نے بلال پر فائرنگ کی جو اس کی جان لینے کا باعث بنی۔‘ ارسلان نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’اگر بلال کے ساتھی تھوڑی ہمت دکھا کر اس کا ساتھ دیتے تو بلال کی جان نہ جاتی۔ میرا بھائی 20سے 25منٹ تک سڑک پر زخموں سے تڑپتا رہا لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔ میرا بھائی اس اعتبار سے خوش قسمت رہا کہ اس کی نمازجنازہ مفتی منیب الرحمان نے پڑھائی جبکہ وہ کئی دنوں سے بیمار تھے لیکن بلال ناصر کی نماز جنازہ کے لیے وہ مسجدمیں موجود تھے۔‘
ڈکیت کی گرفتاری کا دعویٰ اور مزاحمت نہ کرنے کا مشورہ
کراچی پولیس کے سربراہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل جاوید عالم اوڈھو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ڈکیتوں میں سے ایک کو گرفتار کرلیا گیاہے اور امید ہے دوسرا بھی قانون کی گرفت میں ہوگا۔ ان کے مطابق بلال ناصر کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی ایسٹ اور ایس ایس پی انوسٹی گیشن ایسٹ شیرازی اور طارق مستوئی کی نگرانی میں ٹیم بنادی گئی۔گرفتار قاتل ڈکیت 16برس کا تاجک افغان نظام الدین ہے۔ جس کا تعلق گلشن اقبال کے جمالی گوٹھ سے ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل جاوید عالم اوڈھو نے کراچی کے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ڈکیتی کے دوران مزاحمت نہ کریں۔ یاد رہے کہ رواں سال 96شہری ڈکیتی مزاحمت پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اُدھر ایڈیشنل انسپکٹر جنرل جاوید عالم اوڈھو کہتے ہیں کہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف8فی صد اضافہ ہوا ہے۔
Discussion about this post