ہدایتکار جواد شریف کی ” دی لوزنگ سائیڈ” اندورن سندھ ہونے والے تبدیلی مذہب کے جبری واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ مووی نے فرانس کے کانز ورلڈ فلمی فیسٹیول میں انسانی حقوق پر مبنی فلم کے لیے ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
فلم کا چھبتا ہوا موضوع
پاکستانی دستاویزی فلم ” دی لوزنگ سائیڈ” میں سندھ کے ان اقلیتی گھرانوں کو دکھایا گیا ہے جن کی کم عمر لڑکیوں اور کم سن بچیوں کو زبردستی مذہب کی تبدیلی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ کس طرح وہ اس اقدام کو روکنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ان میں کچھ تو کامیاب ہوئے تو کچھ ناکام ۔لگ بھگ سوا 2 منٹ کے ٹریلر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی شخصیات کے انٹرویوز بھی نظر آرہے ہیں جوسندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں۔
یہ سماجی شخصیات ان پہلوؤں کی بھی عکاسی کررہی ہیں جن کے ذریعے کم سن بچیوں کا زور زبردستی مذہب تبدیل کردیا جاتا ہے۔ ان سماجی کارکنوں میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں جو مختلف تلخ اور تکلیف دہ تجربات اور واقعات کو بیان کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت بابر نے بھی جبری مذہبی تبدیلی کے عمل کو خوف ناک مسئلہ قرار دیا ہے۔ فلم میں حقیقی طور پر ان بچیوں کو پیش کیاگیا ہے جنہیں اغوا کرکے مبینہ طور پر مذہب تبدیل کراکے ان کی شادیاں مسلم گھرانوں میں کی گئیں۔ مووی میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے والی لڑکیاں خود اپنی کہانیاں بھی سناتے ہوئے نظرآئیں گی۔
یہ حساس مسئلہ ہے، ہدایتکار
ہدایتکار جواد شریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ” دی لوزنگ سائیڈ ” میں 4 ہندو خواتین کو پیش کیا ہے جو اپنی غم زدہ کہانیاں بیان کررہی ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جنہیں اغوا کیا گیا اور پھر مذہب کی جبری تبدیلی کرنے کے بعد زبردستی شادی کے بندھن میں باندھا گیا۔ ان کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی سالانہ رپورٹ 2021 کا جائزہ لیں تو ہولناک انکشافات سامنے آتے ہیں۔ صرف سندھ میں 27 جبری تبدیلی مذہب کے واقعات رپورٹ ہوئے، ان 27 ہندو اور مسیحی لڑکیوں میں سے 7 تو نابالغ بچیاں تھیں۔ جواد شریف کے مطابق اسی رپورٹ نے ان کے اندر تحریک جنم دی کہ وہ ” دی لوزنگ سائیڈ” جیسی فلم بنا کر حقائق عیاں کریں۔ جواد شریف کو امید ہے کہ ان کی تخلیق کے زریعے ارباب اختیار زبردستی مذہب کی تبدیلی کے اس عمل کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
Discussion about this post