ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگنے والے اس ادھیڑ عمر شخص کو دیکھ کر کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ سندھی زبان کا ایک ایسا صحافی ہے جو گزشتہ 30 سے 35 سال سے صحافت سے منسلک رہا۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ہریش کمار سامی نے سندھ کے اُن اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کیا جو عوام میں خاصی مقبولیت رکھتے۔ ان میں روزنامہ کاوش، تعمیر سندھ، ہلچل، خبرون ، مہران ٹی وی اور اسرو نمایاں ہیں۔ ہریش کمار کی خبریں معاشرے کے تلخ اور حساس پہلوؤں کی عکاسی کرتیں لیکن آج ہریش کمار خود ایک تلخ حقیقت بن کر رہ گئے ہیں۔ حیدرآباد میں صحافت کرنے والے 48 برس کے ہریش کمار ان دنوں مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں کا بھی مقابلہ کررہے ہیں۔ 2 سال پہلے ہریش کمار کو شوگراور پھیپھڑوں کی تکلیف ایسی بڑھی کہ اُن کا صحافتی ذمے داری ادا کرنا مشکل ہوگیا۔
اسپتالوں کے چکر پہ چکر ایسے لگے کہ تن خواہ کا ایک بڑا حصہ علاج پر خرچ ہونے لگا جو کچھ جمع پونجی تھی وہ اسی علاج معالجے میں استعمال ہوگئی۔ ہریش کمار کی طبعیت دھیرے دھیرے اور بگڑنے لگی۔ صورتحال اس نہج پر پہنچی کہ ان کے لیے کام کاج مشکل ہوگیا۔ جبھی گھر پر بیٹھنے پر مجبور ہوئے لیکن 8 بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے معمولی کام بھی کیا۔
بروقت علاج نہ ہونے کی بنا پر ہریش کمار کا اب جگر مکمل طور پر خراب ہوچکا ہے جبکہ گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ کمزوری اور لاغر اس قدر ہوئے کہ کسی کام کی سکت نہ رہی۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے ہریش کمار کی بیماریوں سے تنگ آکر پہلے ہی ان کے لیے اپنے یہاں ملازمت کے دروازے بند کرلیے۔ نوبت فاقوں تک پہنچی تو ہریش کمار حیدرآباد کے مختلف مقامات پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے پائے گئے۔ کوئی بھی یہ جان نہیں پاتا کہ مفلسی ، بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنا یہ گداگر کبھی صحافی بھی تھا۔ المیہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہریش کمار غربت کی بنا پراسمارٹ فون خریدنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے اسی لیے ان کی بیماری کی تصاویر یا ویڈیوز منظرعام پر نہ ۤآسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک کوئی ان پر آنے والی مشکلات کو جان نہ سکا۔ مالی پریشانیوں نے ہریش کمار کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے ۔ صحافتی تنظیموں نے بھی ہریش کمار کے لیے کوئی خاطر خواہ سہارہ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جبھی علاج کے بھاری اخراجات سے تنگ آکر گزشتہ 2 ماہ سے گھر پر ہی قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہریش کمار ان دنوں آبائی گاؤں ٹنڈوالہ یار میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے ۔
ہریش کمار سامی کے مطابق ان کے 8 بچے انتہائی کم سن اور چھوٹے ہیں۔ ان میں 4 تو لڑکیاں ہیں جبکہ سب سے بڑا لڑکا کم عمر ہونے کے باوجود سلائی مشین کا کام کرتا ہے۔ شریک سفر کی بھی طبعیت عموماًخراب ہی رہتی ہے۔ ہندوبرادری سے تعلق رکھنے والے ہریش کمار کی صرف یہ فریاد ہے کہ سندھ حکومت ان کی صحافتی خدمات کی بنا پر اس کے علاج کے لیے اقدامات کرے۔
Discussion about this post