کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب محسود قتل کیس میں راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کرنے کا محفوظ فیصلہ سنادیا۔ عدالت کے مطابق پراسکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یوں اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی قرار دے کر انہیں بری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ آج عدالت میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگرنامزد افراد بھی پیش ہوئے۔
راؤ انوار کا موقف
اس کیس میں نامزد راؤ انوار کا فیصلہ آنے کے بعد یہی کہنا تھا کہ اُن پر جھوٹا کیس بنایا گیا اور آج وہ عدالت سے سرخرو ہوئے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر نقیب محسود کی وائرل ہیں وہ اُس کی نہیں۔ راؤ انوار کے مطابق آج جھوٹا کیس اپنے انجام کو پہنچا ۔ انہوں نے اس جانب بھی اشارہ دیا کہ انہیں ملازمت سے نکالا گیا تھا جبکہ ان کا ایک سال ابھی باقی ہے۔ اسی لیے وہ حکام سے درخواست کریں گے کہ ان کی برطرفی کا فیصلہ بھی واپس لیا جائے۔
مقدمہ کیا تھا ؟
خوبرو اور پرکشش نوجوان نقیب محسود کی 13 جنوری 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے میں مارے جانے کی خبریں عام ہوئیں۔ جس کا الزام سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت ان کے 25اہلکاروں پر لگا۔ نقیب کا تعلق جنوبی وزیرستان سے بتایا گیا جبکہ اس کے ساتھ 3 اور افراد کے مارے جانے کی اطلاعت ملیں۔ ابتدا میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ نقیب کا تعلق کالعدم تنظیم سے ہے لیکن متعلقہ تنظیم نے اس دعوے کو رد کردیا۔ نقیب کا اصل نام جو شناختی کارڈ میں درج ہے وہ نسیم بتایا جاتا ہے جبکہ وہ دکاندار تھا اور ماڈلنگ کا شوق رکھتا تھا۔ جب الزام شدت اختیارکرگیا اور سوشل میڈیا پر راؤ انوار کی گرفتاری کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تو اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔ جنوری 2019 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اور دیگر 3 افراد کو بے گناہ قرار دیا ۔ جعلی مقابلہ کرنے والے راؤ انوار اور 17 ملزمان پرفرد جرم عائد کردی گئی۔ اس مقدمے میں سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر تھے جبکہ دیگر 8 ملزمان اس کیس میں جیل میں تھے۔ یہی نہیں سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔ کیس کو غیر معمولی طور پر سست رفتاری کے ساتھ چلایا گیا اور لگ بھگ پانچ سال تک مختلف سماعتیں ہی ہوتی رہیں۔ گزشتہ سال 5 نومبر کو انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے راؤ انوار کا بیان ریکارڈ کیا جوکہ فیصلہ سنانے سے قبل کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت مطلوب تھا۔ دسمبر 2021 میں کیس کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد نے عدالت کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ راؤ انوار کے کال ڈیٹا ریکارڈ اور سیل فون کی جیوفینسنگ کے مطابق وہ 13 جنوری 2018 کو رات 2:41 سے صبح 5:18 بجے کے درمیان جائے وقوع پر موجود تھے۔
والد انصاف کی راہ تکتے رہے
نقیب محسود کے والد محمد خان بیٹے کے قاتلوں کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کی خواہش کے لیے ایک طویل عرصے تک عدالتی جنگ لڑتے رہے اور آخر کار یکم دسمبر 2019 کو زندگی کی بازی ہار گئے۔
Discussion about this post