سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پرپیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ قرضوں میں 78 فی صد اور سرکلر ڈیٹ میں 125 فی صد اضافہ ہوچکا جبکہ سیلاب نے 31 ارب ڈالر کا خسارہ دیا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن الیکشن پر متفق ہوئے ہیں لیکن اسمبلی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا، ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو حکومت تیار ہے اور ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہیے۔ فاروق ایچ نائیک کہتے تھے کہ ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے لیکن مذاکرات میں کامیابی چند دن میں نہیں ہوسکتی اس لیے مذاکرات کے لیے مذید وقت درکار ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا ہے، یہ معاہد اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ جس کے جواب میں فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے اور اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو بحران نہ آتا اور بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کرسکتے ہیں، عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ نہیں کرتے، ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو جائزہ لیں، جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ حکومت عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے، ہم تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔ معاشی، سیاسی، معاشرتی اور سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ ساتھ آئینی بحران بھی ہے، جمعرات کو بھی 8 لوگ شہید ہوئے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدگی کا اظہار کرنا ہوگا ، معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کرائیں، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے؟ آج کی سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی اور خواجہ سعد رفیق نے بھی روسٹرم پر آکر اظہار خیال کیا۔ عدالت عظمیٰ نے آج کی سماعت مکمل کرلی ۔
Discussion about this post