فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ جسٹس سردار طارق، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ آغاز میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اور ان کا کہنا تھا کہ کل رات 8 بجے کازلسٹ میں اپنے نام کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی، سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریر کیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں، بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنا دیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق وہ کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہے لیکن اُن کے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کریں یا عدالتی حکم پر بینچ میں بیٹھیں ، قانون کو مسترد کیا جا سکتا ہے معطل نہیں کیا جا سکتا۔ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائےجاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کر کے مجھےعجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا یہ بینچ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد اٹھ کر چلا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ بینچ سے اٹھ رہے ہیں ، کیس سننے سے معذرت نہیں کی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس عدالت کو نہیں مانتے۔
Discussion about this post