سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع اپنی نظرثانی کی درخواست پر مزید کارروائی کی خواہش مند نہیں۔ آئی بی، پیمرا، پی ٹی آئی نے بھی متفرق درخواست کے ذریعے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔ درخواست گزار شیخ رشید نے نیا وکیل مقرر کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی جبکہ درخواست گزار اعجاز الحق نے فیصلے کے پیراگراف نمبر4 پر اعتراض اٹھایا۔ دوران سماعت کیس سے متعلق 4 سوالات اٹھائے گئے۔ سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت سوال اٹھایا گیا کہ طویل وقت گزرنے کے باوجود نظرثانی درخواستیں کیس کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں۔ کیا آئینی و قانونی اداروں کا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کا فیصلہ آزادانہ ہے؟ نظرثانی درخواستیں واپس لینے کے لیے ایک ساتھ کئی متفرق درخواستیں کیوں دائر کی گئیں ؟ کیا فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا؟ کچھ درخواست گزاروں کی عدم حاضری پر انہیں ایک اور موقع دیا جاتا ہے۔ تحریری حکمنامے کے مطابق عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں کہا تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق آگے بڑھ کر تحریری طور پر اپنا مؤقف بیان کرسکتا ہے ۔ عدالت ایک اور موقع دیتی ہے کوئی بھی شخص حقائق منظر عام پر لانا چاہے تو اپنا بیان حلفی عدالت میں پیش کرے۔ کوئی بھی فریق یا کوئی اور فرد جواب جمع کرانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا دے۔
Discussion about this post