سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ میں سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی سے بلّے کا نشان لیا گیا، پشاور ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ دے کر بلّا واپس کردیا تھا، سپریم کورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ دے کر نشان واپس لیا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ سنی اتحاد کونسل 226 میں 78 سیٹوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن نے ان کی سیٹیں ایک طرف کر کے باقی سیاسی جماعتوں کو دے دیں۔ اس موقع پر جسٹس شکیل احمد نے دریافت کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھر کیا ہو گا؟ اس موقع پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آپ بتائیں کہ یہ نشستیں کسی اور کو کیوں نہیں دی جائیں۔جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ پارٹی نے بروقت نشستوں کی لسٹ نہیں دی تو پھر کیا ہو گا، اگر سیٹیں زیادہ ہوئیں تو اضافی نشستوں کے لیے لسٹ دے جاسکتی ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے پہلے ایسا کیا، ان کو نشستیں دی گئی ہیں۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ اگر یہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہو گی۔
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ قانون یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو نشستیں ملیں گی۔ اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، یہ اعلامیہ ہے یہ فیصلہ نہیں، یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں، یہ درخواستیں اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں، سندھ ہائی کورٹ میں دی گئی درخواستیں ان درخواستوں سے مماثلت رکھتی ہیں، تمام درخواستوں میں ایک ہی درخواست گزار ہے، درخواستوں میں ایک ہی پیٹرن کو فالو کیا گیا ہے، لاہور ہائی کورٹ میں بھی لارجر بینچ کے لیے استدعا کی گئی۔ دلائل سننے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جسے سنایا گیا جس کے تحت متفقہ طور پر درخواستیں مسترد کردی گئیں۔
Discussion about this post