اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کی سماعت کی ، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ اس موقع پر اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ گواہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کو بار بار کہا گیا سائفر کاپی کے ساتھ یہ نہ کریں ، 342 کے بیان میں بانی پی ٹی آئی خود مان رہے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں جان بوجھ کر کہہ رہے ہیں ، آپ نے ثابت کرنا ہے، سپریم کورٹ کا قانون واضح ہے جہاں ملزم تسلیم بھی کر لے تو پراسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے ، اگر آپ ٹرائل کورٹ کو کاپی دیکھا دیتے تو پھر پراسیکوشن کا کیس بن سکتا تھا، جہاں اعظم خان کہہ رہے ہیں وزیر اعظم نے مجھے کہا ملٹری سیکرٹری اور اسٹاف کو کہو کہ وہ ڈھونڈیں ، تو پھر جان بوجھ کر اپنے پاس رکھنے والی بات تو بھول جائیں۔
عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ محض یہ کہہ رہے ہیں تعلقات خراب ہو سکتے تھے ، کیا صرف اس پر کسی کو سزائے موت دے سکتے ہیں یا دس سال جیل میں رکھ سکتے ہیں کہ خراب ہو سکتے تھے، قانون کی منشا یہ نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر سائفر کاپی اپنے پاس رکھی اس سے متعلق بتائیں۔ عدالت نے اسپیشل پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ اسٹیٹ سیکورٹی کیسے خطرے میں پڑی ؟ اس حوالے سے بتائیں ، اگر بانی پی ٹی آئی نے گم کر دیا تو اس کے اثرات کیا ہوئے ؟ جب ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے اثرات کیا ہوئے تو پھر کیا ہو گا؟ شہادت میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قانون میں تھا کہ سائفر کی کاپی واپس کرنا تھی ، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی اس کے اثرات سے آگاہ تھے، آپ کی جو رولز بک ہے اس تک مخصوص لوگ ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں ، جرم آپ نے پورا ثابت کرنا ہوتا ہے ، جلدی میں نہ کراتے اور آرام آرام سے کرا لیتے تو یہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا، کیا دنیا میں کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے کہ دوپہر کو 342 کا بیان مکمل ہوتا ہے اور 77 صفحے کا فیصلہ آجاتا ہے ، آپ بھی کہہ سکتے تھے آپ نے بھی غیر معمولی جلدی تیزی دیکھائی۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور پھر چند منٹوں بعد اسے سنایا گیا جس کے تحت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی دس دس سال کی سزائیں کالعدم قرار دے کر دونوں کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
Discussion about this post