چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا مصطفیٰ کمال نے فیصل واوڈا سے متاثر ہوکر دوسرے روز پریس کانفرنس کی؟َ مصطفیٰ کمال کے وکیل فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ محض ایک اتفاق تھا۔مصطفیٰ کمال نے توہین نہیں کی، مصطفیٰ کمال نے ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی، عدالت غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی ختم کردے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب توہین نہیں کی تو غیر مشروط معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟ آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی ، اگر پارلیمنٹ میں بات کرتے تو کچھ تحفظ حاصل ہوتا ، آپ پریس کلب میں بات کریں اور تمام ٹی وی چینل اس کو چلائیں تو معاملہ الگ ہے۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے کہا کہ آپ تو سینیٹر ہیں سینیٹ تو ایوان بالا ہوتا ہے، سینٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مصطفیٰ کمال کیخلاف شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت نے توہین عدالت کا مواد نشر کرنے پر 34 ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز بتائیں ان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کریں۔کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔
Discussion about this post