سپریم کورٹ میں بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب آڈیو لیک کیس میں ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا کہنا تھا کہ 29 مئی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکمنامے میں اتھارٹیز کو فون ٹیپنگ سے روک دیا گیا، ہائی کورٹ کے حکمنامے کے سبب انٹیلی جنس ایجنسیز کاؤنٹر انٹیلی جنس نہیں کر پا رہیں اور کسی دہشت گرد کو بھی اب نہیں پکڑ پا رہیں، آئی ایس آئی، آئی بی کو بھی فون ٹیپنگ اور سی ڈی آر سے بھی روکا گیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ہائی کورٹ نے آرٹیکل 199 کے اختیار سماعت سے تجاوز کیا، کیونکہ سپریم کورٹ کے2 عدالتی فیصلوں میں اصول طے شدہ ہے ہائیکورٹ ازخود نوٹس نہیں لی سکتی، عدالت کو بتایا گیا 31 مئی کی ہائیکورٹ کی سماعت میں جو 5سوالات طے کیے گئے وہ درخواست گزاروں کا کیس ہی نہیں تھا اور ہائی کورٹ تفتیش نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آڈیو لیک کیس میں مزید کارروائی سے روکتے ہوئے شہریوں کی جاسوسی کو غیر قانونی قرار دینے اور چیئرمین پی ٹی اے و ممبران کیخلاف توہین عدالت میں شوکاز نوٹس جاری کرنے کے 25 جون کے حکمنامے کو معطل کردیا۔
Discussion about this post