اسلام آباد کے چیف جسٹس عامر فاروق اور اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیکھا ہے جسمانی ریمانڈ کے تمام آرڈرز ایک جیسے ہی ہیں، اسٹیٹ کو جواب دینے دیں کہ ایسا کیا ہوگیا تھا کہ آٹھ آٹھ روز کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا، یہ تو ایسا عمل ہے جس کی کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر پڑھی ہے جس نے بھی یہ لکھی ہے اس نے اچھی کامیڈی لکھی ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ 4 دن ہوگئے، آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا ہے، 8 دن کا ریمانڈ کیوں دیا گیا؟ 2 دن کا دے دیتے، کسٹڈی دی جاتی ہے لیکن حتمی طور پر کسٹڈی کورٹ کی ہی ہوتی ہے، اس مقدمہ میں مضحکہ خیز قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں اور 8 روز کا ریمانڈ دے دیا، اگر الزام درست بھی مان لیں تو اس کا ایک طریقہ کار ہے، یہ اسٹوری جس نے بنائی ہے مزیدار قسم کی کہانی ہے جس پر فلم بن سکتی ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ جلسے میں ریاست مخالف خوفناک تقاریر کی گئیں۔ پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
Discussion about this post