سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ انہیں دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے اور اسی لیے وہ اپنے موکل یعنی بانی پی ٹی آئی مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ اجازت دیں کہ بانی پی ٹی آئی سے اس معاملے پر مشاورت کرلوں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل اپنے شروع کریں۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں؟ جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ آپ منگل کو بھی ملاقات کرسکتےتھے، علی ظفر نے کہا کہ وہ جیل میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے عدالت کوئی حکم جاری کردیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کو بلایاتھا، وکلا کی ملاقات بھی کرائی تھی۔ اسی دوران پی ٹی آئی وکیل طیب مصطفٰین کاظمی نے 5 رکنی لارجر بنچ کو دھمکی دے دی۔ طیب مصطفین کاظمی نے کہا کہ باہر 500وکیل کھڑے ہیں دیکھتا ہوں پی ٹی آئی کے خلاف یہ بنچ کیسے فیصلہ دیتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ملکی اداروں کو اس طرح دھمکا کر چلانا چاہتے ہیں؟ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ برداشت کا مظاہرہ کیا، میری عدم برداشت کی ایسی تربیت ہی نہیں ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کتنے اراکین پارلیمنٹ کو جیل بھیجا ذرا بتائیں، کوئی جتنا مرضی برا بھلا کہتا رہے ہم کیس چلائیں گے۔طیب مصطفین کاظمی نے کہا کہ پی ٹی آئی اس کیس کی متاثرہ ہے، یہ عدالتی بنچ درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے حکم دیا کہ پولیس والوں کو بلایا جائے اس پر وکیل نے کہا کہ بلائیں پولیس کو آپ کا کام ہی یہی ہے۔
چیف جسٹس بولے کہ ہم اپنی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس مظہر عالم میاں نے کہا کہ عدالت میں کھڑے ہو کر سیاسی باتیں نہ کریں، جب کہ وکیل طیب مصطفین کاظمی کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب دیکھیے گا کچھ یوٹیوبرز بھی ساتھ باہر جائیں گے اور پھر تبصرے ہوں گے لگتا ہے عدالت میں جو ہوا مقصد پورا ہوگیا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ یہ ٹرینڈ بن چکا ہے فیصلہ پسند نہ ہو تو عدالتی بنچ پر ہی انگلیاں اٹھانا شروع کر دو، ہم یہاں عزت کیلئے بیٹھے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے دل میں جو آتا ہے کہتا چلا جاتا ہے ہم پیسوں کے لیے جج نہیں بنے، آپ کو پتا ہے جتنی جج کی تنخواہ بنتی ہے اتنا تو وکیل ٹیکس دے دیتا ہے۔ آئینی اداروں کو دھمکیاں لگانے کا سلسلہ بند کریں۔ جسٹس جمال نے کہا کہ کہا جاتا ہے عدلیہ میں دو گروپ بنے ہوئے ہیں کیا ہم قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ارکان ہیں جو گروپنگ کریں گے؟ اگر کوئی جاہل یا ان پڑھ ایسی بات کرے تو سمجھ بھی آتا ہے یہ جو شخص یہاں آیا تھا میں نے اسے سپریم کورٹ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ شخص شکل سے تو خاندانی لگ رہا تھا، کیا یہ اپنے بزرگوں کو بھی ایسے ہی کہتا ہوگا؟ ہم اپنی نوجوان نسل کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ چند لوگ ملک یا اداروں میں ہیں جو چاہتے ہیں پاکستان اسی طرح چلایا جائے جو ہمدردی تھی وہ بھی شاید آپ کو اب نہ ملے۔
Discussion about this post