سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ 2حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا، دوسرے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 (شہریوں کے بنیادی حقوق) سے متصادم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا کیا جواز فیصلے میں دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، جو شخص آرمڈفورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، ایک شخص محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، اگر کوئی شخص کسی محکمہ میں سرے سے ہے نہیں اس پر آرمی فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا، کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، جو شخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اسکو بنیادی حقوق کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا،4 ججز نے فیصلہ میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔ خواجہ حارث نے نکتہ اٹھایا کہ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ ذاتی عناد پر فوجی کا قتل الگ اور بلوچستان طرز پر فوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ملٹری کورٹ کیس کی سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی۔
Discussion about this post