میں بہت خوفزدہ ہوں، گھر سے یونیورسٹی کا فاصلہ انتہائی کم ہے لیکن پھر بھی ڈر لگتا ہے ۔ یہ الفاظ ہیں افغان خاتون کالج پروفیسر مقدسہ رسولی کے جنہوں نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جو خوف انہیں ہے اسی کا شکار افغانستان کی دیگر خواتین بھی محسوس کررہی ہیں ۔ ان کے مطابق سب کے ذہن میں صرف یہ سوال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکمرانی ہوئی تو خواتین کے ساتھ کیا ہوگا ؟
غیر ملکی میڈیا نے افغانستان میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی افغان خواتین سے ملک کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی اور اپنی رپورٹ میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ افغان خواتین سخت خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
دوسری طرف 31 برس کی رسولی نے غیرملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ افغان خواتین نہیں چاہتیں کہ طالبان کا دور پھر سے ملک میں آئے افغان خواتین کے دلوں میں ان گنت خدشات اور وسوسے ہیں۔ ماضی کی یادیں ان کے لیے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر مقدسہ رسولی اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر طالبان اقتدار میں واپس آگئے تو حکومت کی فوج اور سیکیورٹی فورسز میں کام کرنے والی خواتین کو یا تو سنگسار کردیا جائے گا یا پھر کسی بھیٹر کے سامنے عوامی مقام پر قتل کردیا جائے گا۔
افغان خواتین ، طالبان سے خوف زدہ کیوں ہیں ؟
اس سوال کے پیچھے ماضی کی تلخ یادیں افغان خواتین کے ذہنوں میں آج تک ترو تازہ ہیں۔ جو وہ دور بھول نہیں پاتیں جب طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا ، خواتین کو گھر سے باہر نکلنے پربندش لگائی ، مرد رشتے دار کے بغیر سرعام پیش ہونے کو غیر قانونی قرار دیا۔ افغان خاتون کالج پروفیسر مقدسہ رسولی کے مطابق خواتین کے ایک گروپ کو فلپ فلاپ پہننے اور نیل پالش لگانے پر سخت کوڑے بھی مارے گئے ۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک بار اُن کی دس برس کی پڑوسی بچی اسکارف پہننا بھول گئی تو اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ طالبان کو جب یہ علم ہوا کہ رسولی اور دوسری لڑکیاں خفیہ طورپر اسکول میں پڑھ رہی ہیں تو اسے فوری طورپر بند کردیا گیا ۔درحقیقت ماضی میں طالبان کی اسلامی قوانین کی سخت تشریح نے اس وقت افغان مرد اور خواتین کو خوف زدہ کردیا ہے اور ذہن میں سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ کیا پھر وہی دور دہرایا جائے گا ؟
افغانستان میں خواتین کی تعلیمی سرگرمیاں
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ 2001کے بعد افغانستان میں اسکولز کی تعداد میں د س گنا اضافہ ہوا ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کی
رپورٹس کے مطابق 2003 میں ، 10 فیصد سے کم افغان لڑکیوں کو اسکولز میں داخل کرایا گیا ۔جبکہ 2017میں یہ تعداد بڑھ کر 33فی صد تک ہوگئی تھی ۔بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی وجہ سے بہت سے اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔
افغان خواتین مردوں کے شانہ بشانہ
افغان خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اُن کے لیے بے شمار سہولیات فراہم کی گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 2020 تک ، افغان سرکاری ملازمین میں 21 فیصد خواتین تھیں ، جبکہ طالبان کے دور میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان خواتین کی اوسطاً عمر 2001تک 56سال تھی جو 2017میں 66سال تک پہنچ گئی ، جو اس جانب اشارہ ہے کہ افغانستان میں صحت عامہ کی سہولیات میں بتدریج بہتری آئی ۔ اسی طرح بچے کی پیدائش کے دوران 1100خواتین کی اموات ہوجاتی تھی لیکن پھر یہ شرح 2017میں کم ہو کر صرف 396 ہوگئی۔
خواتین کے خلاف حملے
حالیہ برسوں میں افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی میں خواتین زیادہ تر نشانہ بنی ہیں ۔ مئی کے اوائل میں جب کابل میں لڑکیوں کے ایک اسکول پر بمباری کی گئی تو کم از کم 85 افراد ہلاک ہوئے ، جن میں زیادہ تعداد نوجوان طالبات کی تھیں۔ پولیس افسر فاطمہ رجابی ، جو ایک خصوصی اینٹی نارکوٹکس ڈویژن میں کام کرتی تھیں ، جولائی 2020 میں 23 سال کی عمر میں اس وقت ماری گئیں جب طالبان نے ان کی گاڑی روک کر انہیں قتل کیا۔ جون 2020 میں ، فاطمہ نتاشا خلیل ، جو کہ افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک عہدیدار تھی ، کابل میں سڑک کنارے نصب ایک دھماکا خیز بم سے ہلاک ہوگئیں ۔ اسی سال مئی میں مڈ وائف مریم نور زاد کو کابل کے ایک اسپتال میں قتل کیا گیا تھا۔ ان حملوں کے بعد حکومت کی پولیو ویکسین مہم میں شامل 3 خواتین کو نامعلوم افراد نے قتل کردیا ۔ ان خواتین کی عمریں محض 20سال تھیں۔ حالیہ کابل اسکول حملے میں زندہ بچ جانے والی 16 سالہ حمیدہ نویساڈا خاصی پرعزم ہیں ، وہ کہتی ہے کہ وہ ایک بار جب صحت یاب ہوجائیں گی تو انہیں دوبارہ بتائے گی کہ وہ انہیں نہیں روک سکتے، ان کا راستہ ٹھیک نہیں ۔
افغان خواتین کیا سوچ رہی ہیں ؟
افغان شہر فیض آباد کے سرکاری اسپتال کی 55برس کی خاتون ڈاکٹر ولیکا کریم کہتی ہیں کہ سڑکوں پر طالبان کی موجودگی کی وجہ سے اسپتال میں خواتین کے علاج معالجے کی رکاؤٹ حائل ہورہی ہے۔ کالج پروفیسر مقدسہ رسولی کا کہنا ہے کہ صوبہ ہلمند جہاں ان کی یونیورسٹی ہے وہ زیادہ تر طالبان کے زیر کنٹرول ہے ۔ خواتین طالبات اور عملے نے ابھی تک برقعہ نہیں پہنا ہوا ہے ، لیکن لڑکیوں کے ڈریس کوڈ میں تبدیلی آئی ہے اور اب سب نے جسم کو چھپانے والے لمبے کپڑے اور اسکارف پہننا شروع کردیا ہے ۔ بہرحال ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو افغانستان کی حالیہ صورت حال کا ذمے دار امریکا کو قرار دیتا ہے ، جس نے انخلا کا فیصلہ کرکے مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔
طالبان کا موقف
ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ طالبان اس بار ماضی کی غلطیوں کو قطعی طور پر نہیں دہرائیں گے ۔ اس حوالے سے غیر ملکی میڈیا نے طالبان رہنماؤں کی رائے بھی جاننے کی کوشش کی ۔ جس کے مطابق طالبان کا سرکاری عوامی موقف یہ ہے کہ وہ خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے پرعزم ہے۔ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان ٹیم کے سینیر رکن سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کو ختم نہیں کریں گے اور نہ ہی کام کرنے والی خواتین پر پابندیاں عائد کریں گے۔ انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ بدقسمتی سے مخالفین بالخصوص مغربی میڈیا طالبان کی غلط تصویر پیش کررہا ہے ۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
Discussion about this post