” مسلم کمیونٹی میں سے صرف 7 فی صد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اس بار الیکشن میں شوگرلینڈ کا ہرمسلم ووٹر ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ ” یہ خیالات ہیں مظفر وہرہ کے جو امریکی شہر ہوسٹن کے شوگرلینڈ کے سٹی کونسل کے الیکشن میں ایٹ لارج پوزیشن 1 کونسل ممبر کے الیکشن میں قسمت آزما رہے ہیں۔ سٹی کونسل کے یہ الیکشن کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اس بارے میں مظفر وہرہ بتاتے ہیں کہ امریکا میں حکومت کا نظام مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ وفاقی، ریاستی، کاؤنٹی اور پھر سٹی گورنمنٹ۔ شوگرلینڈ ہیوسٹن کا چھوٹا سا شہر ہے لیکن اس کی اپنی حکومت ہے جو کہ منتخب ہو کر اتی ہے۔ سٹی کونسل کے ارکان کی تعداد 7 ہوتی ہےان میں میئر کی پوزیشن سب سے بڑی ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد دیگر نمائندے ہوتے ہیں اور یہ سب مل کر سٹی گورنمنٹ کو چلاتے ہیں۔ مظفر وہرہ کا مزید کہنا ہے کہ شوگر لینڈ کے کئی اہم اور بنیادی مسائل اور معاملات کا فیصلہ سٹی کونسل اور اس کے ارکان ہی کرتے ہیں۔ جیسے ٹریفک ، سیکوریٹی، پارکس کی تعمیر نو یا پھر اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب، ان سب اقدامات کی ذمے داری سٹی کونسل اور اس کے ارکان ہی متفقہ طور پر فیصلہ کرکے کرتے ہیں۔
مظفر وہرہ کون ہیں ؟
مظفر وہرہ نے کراچی میں آنکھ کھولی جبکہ بی ایس سی 1988 میں کیا اورپھر 1992 میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ لگ بھگ 30 سال قبل مظفر وہرہ نے کراچی سے ہجرت کرکے امریکا کا رخ کیا۔ وہ شوگر لینڈ کی کئی اکیڈمیز سے گریجویٹس بھی ہیں جبکہ شوگر لینڈ کے سب سے بڑے اسکول فورٹ بینڈ انڈی پینڈینٹ اسکول ڈسٹرکٹ کی لیڈرشپ بورڈ کمیٹی کا حصہ بھی، یہی نہیں مظفر وہرہ سٹی کے تھینک ٹینک کے بھی رکن ہیں۔ ایک بیٹا ڈاکٹر، جبکہ دوسرا وکالت کے شعبے سے وابستہ ہے، ایک بیٹا یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں جبکہ بیٹی مقامی اسکول کی طالبہ ہے۔ 30 سال پہلے امریکا آنے والے مظفر وہرہ نے ایک چھوٹے سے کاروبار سے زندگی کا سفر شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنی مسلسل محنت اور لگن کے باعث وہ اس وقت امریکا کے کامیاب کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
سٹی کونسل الیکشن میں کیوں حصہ لیا؟
مظفر وہرہ کہتے ہیں کہ جب بھی سٹی کونسل کے الیکشن ہوتے تھے تو یہ خاموشی سے گزر جاتےبلکہ اکثر امیدوار بلامقابلہ کامیابی حاصل کرتے۔ ان کا عام شہری کو علم ہی نہیں ہوتا اور وہ لاعلم رہتے کہ سٹی کونسل کی موجودگی میں ان کے حقوق کون کون سے ہیں۔ پھرالمیہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی مین اسٹریم کی سیاست میں شامل ہونے پر تذبذب کا شکار رہتی۔ مظفر وہرہ کا کہنا ہے کہ کوشش بس یہی ہے کہ نوجوان نسل کو مقامی سیاست میں لے کرآئیں ۔ پاکستانی کمیونٹی کی نوجوان نسل کے بزرگ 30 سال پہلے امریکا آئے تھے۔ وہ محنت مزدوری کرکے یہاں تک پہنچے۔ اب ان کی اولاد ڈاکٹرزیا انجینئرز تو ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ وہ مین اسٹریم کی سیاست میں بھی اپنی شمولیت کو یقینی بنائیں۔ مظفر وہرہ نے پاکستانی اور ایشیائی کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ ان الیکشن میں حصہ لیں۔ تاکہ سیاست میں شامل ہو کر اور زیادہ فعال ہوں۔ مظفر وہرہ کے مطابق پاکستانی نوجوانوں کو اس بات کی آگاہی دی جارہی ہے کہ وہ نچلے سطح کی سیاست میں حصہ لے کر مرحلہ وار اپنی قابلیت اور ذہانت کو استعمال کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک انتخابی مہم کے دوران پاکستانی کمیونٹی کا رسپانس غیرمعمولی حد تک رہا۔
پاکستانیوں کی سیاست میں بڑی تعداد
مظفر وہرہ کہتے ہیں کہ اس بار پاکستانی خاصے سرگرم ہیں اور یہ 30 سال کے دوران پہلی بار ہورہاہے کہ سٹی کونسل کے الیکشن مین پاکستانی اور ایشیائی باشندوں کا جوش و خروش عروج پر ہے۔ کئی پاکستانی امیدوار مقابلے پر ہیں ان میں امیر ملک اور ناصر حسین نمایاں ہیں۔
پاکستانی کمیونٹی ووٹ نہیں دیتی ؟
مظفر وہرہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کیمونٹی ووٹ دینے کے لیے نکلنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مظفر وہرہ کے مطابق بڑی مشکلوں سے پاکستانی کمیونٹی کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے نکالنا پڑتا ہے۔ چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور جنوبی ایشیائی باشندے بھرپور انداز میں رائے شماری میں شامل ہوں۔ شوگر لینڈ کی آبادی ایک لاکھ 15 ہزار کے قریب ہے اور اس میں 40 فی صد ایشیائی باشندے ہیں۔ رجسٹرڈ مسلم ووٹرز کی تعداد 9 ہزار سے زیادہ ہے، ان میں سب سے زیادہ بڑی کمیونٹی پاکستانی مسلم کی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم ووٹرز میں سے صرف 7 فی صد ہی ووٹ کا استعمال کرکے اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں۔ اگر ہم 40 سے 50 فی صد ووٹنگ میں حصہ لیں تو بڑی آسانی سے ہم ساری نشستیں جیت سکتے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کو اس بار یہ بھی ۤآگاہی دی جارہی ہے کہ ان کا ووٹ کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔
مظفر وہرہ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ جب مسلمان ووٹ دیتے ہیں تو ان کا امریکی قومی ڈیٹا اپ ڈیٹ ہوتا ہے کہ کتنے مسلمانوں نے امریکی انتخابات میں حصہ لیا اور اسی تناسب کے ساتھ مسلمانوں کے لیے مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جب مسلمان ووٹ نہیں کریں گے تو ان کی اہمیت کا اندازہ کس طرح ہوگا؟
شوگر لینڈ کے مسائل کیا کیا ہیں ؟َ
مظفر وہرہ کا کہنا ہے کہ شوگر لینڈ میں ٹریفک بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ بڑھتے ٹریفک کی وجہ سے ہرشہری متاثر ہورہا ہے، اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر اسی طرح شہریوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟ اور اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اس سے کس سے رابطہ کرنا ہوگا۔ مظفر وہرہ کے مطابق چاہتے ہیں کہ سٹی کونسل اور شہریوں کے درمیان پل کا کردار ادا کریں۔ اسی طرح مختلف کمیونٹیز کو حصہ دار بنا کر مختلف مسائل کو حل کرائیں۔ مظفر وہرہ شوگر لینڈ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل شوگرلینڈ وجود میں جب آیا تو یہاں امریکا کی سب سے بڑی شوگرمل ایمپرئل شوگر کمپنی تھی، اب یہ فیکٹری بند ہوچکی ہے۔
سٹی کونسل اس خالی اراضی پر شہریوں کے ساتھ مل کر تعمیراتی منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہاں ماڈرن طرز کا علاقہ بنایا جائے گا جہاں بہترین رہائشی کالونی ہو، ریسٹورنٹس ہوں او تھیٹرز بھی۔ یہ دراصل لاکھوں ڈالرز کا منصوبہ ہے۔ اب سٹی کونسل چاہتی ہے کہ نومنتخب قیادت مقامی آبادی کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو حتمی شکل دیں۔ شوگر لینڈ سٹی کونسل کے الیکشن میں ارلی ووٹنگ 22 سے 29 اپریل تک جاری رہے گی جبکہ الیکشن ڈے 3 مئی مقرر ہے۔
Discussion about this post