چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے 9 مئی ضمانت منسوخی کے لیے اپیلوں پر سماعت سماعت کی۔ عدالت نے حکم دیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتیں ہر 15 دن میں ٹرائل سے متعلق پیش رفت رپورٹس متعلقہ ہائی کورٹس میں جمع کرائیں۔ اس موقع پر وکیل خدیجہ شاہ نے کہا کہ 4 ماہ میں ٹرائل کیسے مکمل ہوگا؟ میری موکلہ کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمارے خلاف 35 مقدمات ہیں اتنے کم عرصہ میں ٹرائل مکمل نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے فیصل چوہدری سے استفسار کیا کہ آپ کس کے وکیل ہیں؟ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ میں شریک ملزم فواد چوہدری کا وکیل ہوں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ کو نہیں سنیں گے کیونکہ آپکا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا، وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پھر ہمارا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مردان میں مشال خان قتل کا واقعہ ہوا تھا، میں اس وقت پشاور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تھا۔ مشال خان قتل کیس کا 3 ماہ میں ٹرائل مکمل ہوا، انسداد دہشت گردی عدالت پر اعتماد کریں، عدالت پرفارم کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتیں 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کریں، ٹرائل کورٹ میں ملزمان کے دیگر درج مقدمات کی وجہ سے حقوق متاثر نہ ہوں۔
Discussion about this post