لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے سوشل میڈیا پر چائے والا کے نام سے مقبولیت حاصل کرنے والے ارشد خان کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرنے پر وفاقی حکومت اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹسز جاری کردیے۔ درخواست گزار نے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت عدالت سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس کی طرف سے ان کی شناختی دستاویزات بلاک کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ ارشد خان پاکستانی خواب کی علامت ہیں، اسلام آباد میں چائے بیچتے ہوئے ان کی ایک تصویر کے وائرل ہونے کے بعد جس نے انہیں بین الاقوامی شہرت تک پہنچایا، عالمی سطح پر ان کی پہچان کے باوجود نادرا اور دیگر اداروں کے اقدامات نے ان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وکیل کے مطابق نادرا کی طرف سے 1978 سے قبل رہائش کے ثبوت کا مطالبہ بدنیتی پر مبنی تھا اور اس میں کوئی قانونی جواز نہیں تھا، خاص طور پر اس وقت جب ارشد خان کے خاندان کی شہریت کی دستاویزی تاریخ ہے، آئین کے آرٹیکل 4، 9، 14 اور 18 کا حوالہ دیتے ہوئے وکیل نے ارشد خان کے ذریعہ معاش، وقار اور قانونی سلوک کے حقوق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا۔
اس موقع پر عدالت کو سندھ ہائی کورٹ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلوں سے بھی آگاہ کیا گیا جس میں مناسب طریقہ کار کے بغیر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ جسٹس حسن نے فریقین کو 17 اپریل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے نادرا اور ڈائریکٹوریٹ آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس کے سینئر افسران کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کی تاکہ وہ اپنے اقدامات کا جواز پیش کرسکیں۔ عدالت نے حکام کو درخواست گزار کے خلاف کوئی منفی کارروائی کرنے سے بھی روک دیا۔
Discussion about this post