یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں امیگریشن کے کریک ڈاؤن اور ویزوں کی منسوخی کے حالیہ واقعات نے بین الاقوامی طلبہ، خاص طور پر پاکستانی اور دیگر ایشیائی کمیونٹیز کے طلبہ میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان طلبہ کے لیے ملک بدری کا خطرہ اب صرف ایک مفروضہ نہیں رہا، بلکہ ایک ذاتی اور حقیقی خوف بن چکا ہے جو ان کے بولنے، احتجاج کرنے اور یونیورسٹی کی کمیونٹی میں شامل ہونے کے حق سے جُڑا ہوا ہے۔ اکثر پاکستانی اور ایشیائی طلبہ ایف ون اسٹوڈنٹ ویزے پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ ایک ایسا قانونی درجہ جو اب سخت حکومتی اقدامات کے باعث نہایت نازک محسوس ہوتا ہے۔ اس خوف کا اثر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں یہ طلبہ اکثر عالمی سطح پر انصاف کی تحریکوں، جیسے فلسطینیوں سے یکجہتی کے مظاہروں میں سرگرم ہوتے ہیں، وہیں اب وہ خود کو خاموش، زیر نگرانی اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ہیوسٹن کی ایک گریجویٹ طالبہ نے جمعرات کے احتجاج میں کہا کہ بہت سے بین الاقوامی طلبہ احتجاج میں شرکت نہیں کر پاتے کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں۔ "وہ سرگرم رہنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں معلوم ہے کہ اگر وہ نظر آئے تو اُن کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔”یہ احساس پاکستانی طلبہ میں بھی عام ہے۔ ان میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر وہ آواز بلند کریں گے، چاہے پُرامن طریقے سے ہی کیوں نہ ہو تو ان کے ویزے منسوخ کیے جا سکتے ہیں یا انہیں واپس بھیجا جا سکتا ہے، چاہے وہ برسوں سے امریکہ میں رہ رہے ہوں۔ ان کے لیے یہ صرف تعلیم کا معاملہ نہیں بلکہ ایک مکمل زندگی کا سوال ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ مک نالی جیسے اساتذہ نے ان پالیسیوں کے انسانی پہلو پر روشنی ڈالی۔ "ہم صرف کہانیاں جوڑ رہے ہیں ، ایسے طلبہ جو اچانک کلاس سے غائب ہو گئے، جن کے ویزے بغیر کسی وارننگ کے منسوخ کر دیے گئے۔ یہ واقعات انفرادی نہیں، بلکہ ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔”
طلبہ کے لیے "سینکچوئری کیمپسز” کا مطالبہ یعنی ایسے محفوظ مقامات جہاں وہ بغیر کسی امیگریشن خطرے کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں ، اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔ پاکستانی اور ایشیائی طلبہ کے لیے یہ محض قانونی تحفظ کا معاملہ نہیں، بلکہ عزت، شمولیت، اور تعلیمی اداروں میں آزادی سے جینے کا حق ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طلبہ "باہر سے آئے ہوئے” نہیں ہیں، یہ تحقیق کار ہیں، ٹیچنگ اسسٹنٹس ہیں، ثقافتی تنظیموں کے لیڈرز ہیں اور کیمپس کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی خاموشی پورے تعلیمی نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں ہونے والا احتجاج ایک بڑی قومی تحریک کا حصہ ہے جو بین الاقوامی طلبہ، علمی آزادی، اور اختلافِ رائے کے حق کے دفاع کے لیے آواز اٹھا رہی ہے۔ مگر اس تحریک میں پاکستانی اور ایشیائی طلبہ کی آوازیں جو اکثر خود انقلابی حلقوں میں بھی نظرانداز کی جاتی ہیں بلند ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ صرف ویزے کا مسئلہ نہیں یہ اس بات کا سوال ہے کہ کون بولنے کا حق رکھتا ہے۔
Discussion about this post